زیادہ عجیب ۔ ابویحییٰ
خدا سب کچھ جانتا ہے، مگر انسان خدا کی ذات کے بارے میں کچھ نہیں جان سکتا۔ خدا دیکھتا ہے مگر اسے دیکھا نہیں جاسکتا۔ وہ بولتا ہے، مگر انسانی دائرہ سماعت سے باہر رہتا ہے۔ وہ دعائیں سنتا اور قبول کرتا ہے، مگر اس کا ردعمل محسوس نہیں ہوتا۔ پھر سوال یہ ہے کہ اس کو کیوں مانا جائے؟ کیوں نہ اس کے بارے میں کیے گئے ہر دعوے کو کچھ نیک انسانوں کے تخیل کی کارفرمائی مانا جائے؟
اس سوال کا جواب ہے کہ خدا کا انکار صرف خلامیں کھڑے ہوکر کیا جاسکتا ہے، اس کرہ ارض پر نہیں۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ خلا میں زندگی نہیں ہوتی اور مرنے کے بعد خدا کے ثبوت کی ضرورت نہیں رہتی۔ مرنے کے بعد انسان کی خدا سے براہ راست ملاقات ہوجاتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ مادہ عدم سے وجود میں آیا۔ مادے سے ستارے اور سیارے بنے۔ سیارہ زمین پر زندگی ہے۔ زندگی کو یقینی بنانے والے ہزاروں مادی عوامل کارفرما ہیں جو معلوم کائنات میں کہیں اور کام نہیں کرتے۔ یہاں زندگی کی لاکھوں اقسام اور جانداروں کی بے گنتی تعداد ہے جس کی بقا اور تحفظ کا انتہائی حیرت انگیز نظام مسلسل چل رہا ہے۔
یہاں انسانی شعور ہے جو مادہ اورحیات سے آگے بڑھ کر ایک ایسا وجود ہے جو حیرت انگیز طور پر اس پوری کائنات کوسمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ انسانی شعور اس کائنات میں ہر جگہ قدرت و رحمت کی کارفرمائی کھلی آنکھ سے دیکھتا اور انکار کر دیتا ہے یہ اسے بخت و اتفاق کے خانے میں ڈال دیتا ہے۔مگر خواہش اور تعصب عقل پر غالب نہ ہو تو خدا کو مانے بنا کوئی چارہ نہیں۔
خدا اس مادہ کائنات کے ہونے، اس میں زندگی اور زندگی میں شعور کے ہونے کی واحد معقول توجیہ ہے۔ اس لیے خدا کو ماننا ہرگز عجیب نہیں۔ خدا کونہ ماننا زیادہ عجیب ہے۔