زندہ نماز ۔ ابو یحییٰ
عام طور پر لوگ یہ شکایت کرتے ہیں کہ نمازوں میں یکسوئی اور توجہ نہیں پیدا ہو پاتی۔ عین نماز کے وقت ساری دنیا کے خیالات آنے لگتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں نمازیں بے روح مشق بن کر رہ جاتی ہیں اور اطمینان قلب حاصل نہیں ہو پاتا۔
یہ شکایت بالکل درست ہے۔ مگر اس کو دور کرنا زیادہ مشکل نہیں ہے۔ نماز میں بے توجہی کچھ وجوہات کی بنا پر پیدا ہوتی ہے۔ ان وجوہات کو دور کرلیا جائے تو مکمل طور پر نہ سہی لیکن مجموعی طور پر نمازو ں میں کافی بہتری لائی جاسکتی ہے۔
نماز میں توجہ کے ضمن میں بنیادی بات یہ سمجھنے کی ہے کہ توجہ کا تعلق شعور سے ہے۔ مثلاً آپ اگر ٹی وی پر خبریں دیکھ رہے ہیں تو آپ کا ذہن نیوز اینکر کی بات سننے اور سمجھنے میں مصروف رہے گا۔ بات کو سننے اور سمجھنے کا یہ عمل آپ کے شعور کو مسلسل ٹی وی کی طرف متوجہ رکھتا ہے۔ اب فرض کیجیے کہ یہ خبریں انگریزی میں آرہی ہوں اور آپ کو انگریزی نہیں آتی تو سوچیے کیا ہوگا؟ آپ کتنی ہی شعوری کوشش کر لیں، آپ خبروں کی طرف متوجہ نہیں ہوسکتے۔ اس لیے کہ جب آپ کا شعور خبریں نہیں سمجھ سکے گا تو وہ کچھ ہی دیر میں کسی اور سمت متوجہ ہو جائے گا۔
چنانچہ یہاں سے یہ بات واضح ہوئی کہ اگر کوئی بات سمجھ میں نہیں آتی تو ہمارا شعور اس کی طرف متوجہ نہیں رہتا۔ نماز میں بے توجہی کی پہلی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ہم نماز کے دوران میں جو کچھ اذکار پڑھتے ہیں وہ ہمارے لیے کچھ رٹے رٹائے الفاظ ہوتے ہیں۔ ہمیں ان الفاظ اور اذکار کا مطلب معلوم نہیں ہوتا۔ جب مطلب ہی نہیں معلوم تو ہمارا شعور دوسری سمت متوجہ ہونے لگتا ہے۔ ہم لاکھ کوشش کریں، بار بار اس کو نماز کی طرف لائیں؛ ذہن کچھ دیر میں پھر کسی اور سمت نکل جائے گا۔ یہ ذہن کا فطری کام ہے۔ ہم کسی مصنوعی کوشش سے اس کو نہیں روک سکتے۔ چنانچہ نماز میں توجہ کے لیے پہلی ضروری چیز یہ ہے کہ نماز ترجمے کے ساتھ یاد کی جائے ۔نماز کے متعین اذکار بہت کم ہیں۔ کوشش کی جائے تو تھوڑے دنوں میں سب کا لفظی اور بامحاورہ ترجمہ یاد کیا جاسکتا ہے۔ اس کا اہتمام کرنا چاہیے۔
اس کے بعد ایک دوسرا مسئلہ سامنے آتا ہے۔ وہ یہ کہ بہت سے لوگ جن کو نماز ترجمے سے یاد ہوتی ہے، ان کی توجہ بھی نماز میں باقی نہیں رہتی۔ یہ شکایت بھی درست ہے۔ مگر ایک دفعہ پھر اس کی وجہ ذہن کے کام کرنے کا طریقہ ہے۔ اس طریقے کو ایک دوسری مثال سے سمجھیے۔
جو لوگ نئی نئی گاڑی چلانا سیکھتے ہیں وہ دوران ڈرائیونگ ہر کام سوچ سمجھ کر کرتے ہیں۔ مگر جن لوگوں کو گاڑی چلانے کی عادت ہو جائے وہ گاڑی اسٹارٹ کرنے سے لے کر بریک اور گیئر لگانے تک ہر کام لاشعوری طور پر خود بخود کرتے ہیں۔ ذہن کی یہ خصوصیت ہے کہ جن کاموں کی عادت ہو جائے وہ یہ کام خود نہیں کرتا بلکہ ہمارے اعصابی نظام کے اس حصے کے حوالے کر دیتا ہے جسے ریفلیکسز (Reflexes) سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔یہ ایسا ہی ہے جیسے پائلٹ جہاز کو اڑانے کے بعد اسے آٹو موڈ کے حوالے کر دیتے ہیں۔
چنانچہ انسانی ذہن معمول کے طور پر کیے جانے والے کاموں کو اعصاب کے آٹو موڈ کے حوالے کر کے خود فارغ ہو جاتا ہے۔ چنانچہ عام تجربہ ہے کہ ہم ڈرائیونگ کے دوران ہر چیز آٹو میٹک طریقے پر بلا سوچے کرتے ہیں اور اس دوران میں ہمارا ذہن دوسری چیزیں سوچتا رہتا ہے۔ ٹھیک یہی نماز میں بھی ہوتا ہے۔ نماز متعین اعمال جیسے تکبیر تحریمہ، قیام، رکوع، سجود، قعدہ اور سلام جیسے اعمال پر مشتمل ہے۔ ہم ان اعمال کو معمولاً ادا کرنے کے عادی ہوتے ہیں۔ چنانچہ جیسے ہی ہم تکبیر تحریمہ کے لیے ہاتھ اٹھاتے ہیں، ہمارا ذہن سارے معاملات ریفلیکسز کے حوالے کر کے آٹو موڈ آن کر دیتا ہے اور خود دوسری چیزیں سوچنے میں مشغول ہو جاتا ہے۔ ہم لاکھ نماز میں توجہ قائم کرنے کی کوشش کرلیں، ذہن اپنی ساخت کے تحت تھوڑی دیر میں پھر معاملات آٹو موڈ کے حوالے کر کے دوسری طرف متوجہ ہوجاتا ہے۔
نماز چونکہ اجتماعی عبادت ہے اس لیے اس کا طریقہ ایک رکھنا ضروری ہے۔ چنانچہ نماز کے اعمال متعین ہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے اس مسئلے کو سمجھتے ہوئے ہمیں یہ آزادی دی ہے کہ کچھ مختصر اور متعین اذکار کے سوا خدا کی حمد، ثنا، تسبیح، تمجید، تعریف، تقدیس، دعا، درود وسلام کے ضمن میں جو چاہیں پڑھ سکتے ہیں۔ نماز کے متعین اذکار بہت مختصر ہیں جیسے سورہ فاتحہ، اللہ اکبر، سمع اللہ لمن حمدہ اور سلام وغیرہ۔ اس کے علاوہ نماز میں کوئی چیز متعین نہیں ہے۔ چنانچہ قرأت کرتے ہوئے یہ آزادی ہے کہ جہاں سے چاہیں اور جتنا چاہیں قرآن پڑھیں۔ اس کے لیے ہمیں یہ اہتمام کرنا چاہیے کہ زیادہ سے زیادہ قرآن یاد کریں تاکہ مختلف نمازوں اور رکعتوں میں قرآن کا الگ الگ حصہ پڑھا جاسکے۔
اسی طرح رکوع، سجود، قعدہ وغیرہ میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مختلف مواقعوں پر مختلف اذکار پڑھا کرتے تھے۔ ان کا اہتمام کرنا چاہیے۔ اس ضمن میں ہمیں ان اہل علم کی رائے سے اتفاق ہے جو ان ذاتی اذکار و دعا میں عربی کی شرط نہیں لگاتے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی مادری زبان عربی ہی میں اللہ کے حضور ذکر و مناجات فرماتے تھے۔ یہی اسوہ حسنہ ہمارے لیے ہے۔ آپ عربی کے مسنون اذکار کے علاوہ اپنی زبان میں جس طرح چاہیں خدا کو یاد کریں اور اس کے حضور اپنے معاملات پیش کریں۔
اس ذاتی ذکر اور دعا سے آپ کی نماز خدا سے ایک زندہ مکالمہ بن جائے گی۔ یہ زندہ نماز ایسی نعمت ہے جس کا کوئی تصور رٹے رٹائے الفاظ پڑھنے والا شخص نہیں کرسکتا۔ اسی سے نماز میں توجہ، خشوع، محبت اور شوق پیدا ہوتا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس کی آج ہر نمازی کو ضرورت ہے۔