عبادت کی روح ۔ ابویحییٰ
نماز اور دیگر عبادات سے متعلق بہت سے لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو ان عبادات کی کیا ضرورت ہے۔ بہت سے ملحدین یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا اپنی تعریف، پرستش اور عبادت کے لیے لوگوں کو مجبور کرنا غیر اخلاقی عمل نہیں ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ خدا کی حمد، پرستش اور اس کی عبادت اپنی ذات میں عین اخلاقی عمل ہے۔ انسان کے متعلق دو حقائق بالکل واضح ہیں۔ ایک یہ کہ انسان ایک عاجز ہستی ہے۔ وہ نہ اپنی زندگی پر کوئی قدرت رکھتا ہے اور نہ اسباب زندگی فراہم کرنے پر۔ سورج، ہوا، پانی، غذا غرض زندگی کے وجود، بقا، تسلسل اور تحفظ کے لیے جس چیز کی ضرورت ہے، انسان اس کو خود فراہم نہیں کرسکتا۔ یہ خدا کی ہستی ہے جو انسان کو یہ سب کچھ عطا کرتی ہے۔
انسان کے متعلق دوسری حقیقت یہ ہے کہ انسان ایک اخلاقی وجود ہے۔ یہ مہربانی، احسان اور شفقت کو سمجھ کر اس کا جواب اعتراف، شکر گزاری اور خدمت و اطاعت سے دیتا ہے۔ ایسے میں جس خدا نے یہ سب کچھ عطا کرکے اس کے ہر عجز کی تلافی کی ہے، انسان کی اخلاقی حس اسے مجبور کرتی ہے کہ وہ اس خدا کا شکر کرے۔ اس کا احسان مانے۔ اس کی اطاعت اور پرستش کرے۔ ایسا کرنا عین اخلاقی عمل ہے۔
عبادات کو جب اس اخلاقی روح کے ساتھ سمجھ کر کیا جاتا ہے تو ایسا انسان خلق کے حقوق کی ادائیگی میں بھی محتاط ہوجاتا ہے۔ جس نے ان دیکھے خدا کے حقوق کو سمجھا، وہ نظر آنے والی مخلوق کے حقوق سے کیسے بے پروا رہ سکتا ہے۔ چنانچہ عبادات اگر روح کے ساتھ ادا کی جائیں تو وہ انسان کو خالق کے ساتھ مخلوق کے حقوق میں بھی حساس بنا دیتی ہیں۔ یہی وہ عبادات ہیں جو اس دنیا میں ایک اعلیٰ انسان اور آخرت میں اس جنت کو تخلیق کرتی ہے جہاں اعلیٰ انسان ہمیشہ اپنے خالق کی معیت میں رہیں گے۔