زندہ اور مردہ قوم ۔ ابویحیی
پچھلے محرم کے موقع پر کراچی کے ایک معروف ذاکر کا ایک ویڈیو کلپ بہت مشہور ہوا جس میں انھوں نے یہ بتایا تھا کہ نیپال میں نوجوان یوم عاشور صبح کے وقت اپنے گھر سے جنگل میں نکل جاتے ہیں اور چھریوں سے ماتم کرتے ہوئے مر جاتے ہیں، ان کی موت واقع ہوجاتی ہے۔ پھر شام کو وہ اٹھ کر اپنے گھر زندہ ہوکر لوٹ آتے ہیں۔ اپنی اس بات کو انھوں نے مزید یہ کہہ کر موکد کیا تھا کہ جس کا دل چاہے جا کے دیکھ لے کہ وہ کیسے مرتے اور کیسے زندہ ہوجاتے ہیں۔
ایک لطیفہ ایک حقیقت
فیس بک اور سوشل میڈیا پر ایک عرصہ تک اس بات کا چرچا رہا اور یہ بات مذاق کا موضوع بن گئی۔ بہت سے لطائف تھے جو اس حوالے سے بنا لیے گئے اور کافی مشہور ہوئے۔ ان میں سے ایک لطیفہ کچھ اس طرح بنایا گیا کہ صوبہ سندھ میں ہر روز سرکاری ملازم اپنے گھروں سے نکلتے ہیں اور سرکاری دفتروں میں جاکر مرجاتے ہیں، انھیں موت آجاتی ہے۔ پھر شام کے وقت وہ اٹھتے ہیں اور زندہ ہوکر گھر لوٹ جاتے ہیں۔ جس کا دل چاہے جا کے دیکھ لے۔
یہ بات ظاہر ہے کہ لطیفہ ہے، مگر اپنی جگہ اس پہلو سے ایک حقیقت کا بڑا لطیف بیان ہے کہ ملک بھر کے سرکاری دفاتر میں بالعموم اور صوبہ سندھ کے سرکاری دفاتر میں یہاں کے مخصوص حالات کی بنا پر سرکاری ملازمت بغیر کام کیے تنخواہ لینے کا نام ہے۔ آپ کسی بھی سرکاری دفتر میں چلے جائیں، اکثر و بیشتر لوگ دفتر کے اوقات میں اپنی سیٹ پر نہیں ہوتے۔ ہوتے ہیں تو کام نہیں کرتے۔ صبح دیر سے آتے ہیں اور جلد چلے جاتے ہیں۔ یہی معاملہ لنچ کے لیے آنے جانے کا ہے۔ وقت سے پہلے چلے جانا اور وقت کے بعد آنا معمول ہے۔
اس کے علاوہ یہاں جو کچھ ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ عام لوگوں کو تنگ کرنے کے علاوہ ان سے رشوت لے کر یا سرکاری خزانے سے ناجائز طریقے پر لاکھوں کروڑوں روپے کمائے جاتے ہیں۔ صورتحال یہ ہے کہ ان سرکاری دفاتر سے کوئی جائز کام بغیر رشوت کے نہیں کرایا جاسکتا ہے اور ہر ناجائز کام رشوت دے کر کرایا جاسکتا ہے۔ اس سلسلے میں ذاتی تجربات، مشاہدات اور حقیقی واقعات کی ایک داستان ہے جو یہاں رہنے والے لوگ بیان کرسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر آپ نے کوئی پراپرٹی بیچنی ہے تو اس کے لیے رجسٹرار آفس میں جا کر بیچنے والے اور خریدنے والوں کو رجسٹرار کے سامنے دستخط کرنے ہوتے ہیں۔ رجسٹرار کا کام صرف اتنا ہوتا ہے کہ وہ متعلقہ دستاویز، فیس چالان وغیرہ کو دیکھ کر یہ بات یقینی بنا لے کہ لین دین باہمی رضامندی سے ہورہا ہے اور یہ کہ حکومتی فیس ادا کر دی گئی ہے۔
ہر روز درجنوں بلکہ بعض اوقات سینکڑوں کی تعداد میں یہ سودے ہوتے ہیں اور ہر سودے میں لاکھوں روپے رشوت کے وصول کیے جاتے ہیں۔ چاہے کاغذات پورے ہوں۔ چاہے تمام فیس چالان بھر دیے گئے ہوں یہ پیسے ہر حال میں دینے ہوتے ہیں۔ اگر کچھ کاغذات کم ہیں تو اس کے اضافی پیسے لگتے ہیں۔ اگر آپ کی جیب میں پیسے ہوں تو ہر کام کرایا جاسکتا ہے۔ یہ سارا پیسہ اوپر تک تقسیم ہوتا ہے۔ اس لیے کوئی شخص اس سلسلے کو نہیں روکتا۔
ہمہ گیر بگاڑ
یہ معاملہ صرف ایسے ہی سرکاری دفاتر کا نہیں جہاں مالیاتی لین دین ہوتا ہے بلکہ بعض ایسے شعبے جہاں لوگ توقع نہیں کرسکتے وہاں بھی یہ کھیل عام ہے۔ مثال کے طور پر سرکاری ہسپتال میں کام کرنے والے ایک دیانت دار ڈاکٹر صاحب نے مجھے ہسپتالوں کے کئی واقعات سنائے۔ انھوں نے بتایا کہ سرکاری ہسپتالوں میں بعض بڑے سرجنوں اور ڈاکٹروں کا یہ طریقہ ہے کہ کوئیمشکل کیس اگر آجائے تو مریض کو خوفزدہ کرکے اسے آمادہ کرلیتے ہیں کہ وہ یہ آپریشن ان کے پرائیویٹ ہسپتال یا کلینک میں کروائے۔ اور یوں وہ پرائیویٹ علاج کے ذریعے سے مہینے کے لاکھوں روپے کما لیتے ہیں۔ یہ تو بڑے لوگوں کا حال ہے جبکہ چپڑاسی اور خاکروبوں کی سطح کے لوگوں کے اپنے ڈھنگ ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے مجھے بتایا کہ ان سے ایک دفعہ ایک مریض نے شکایت کی کہ خاکروب اس مریض کو پیشاب کا برتن بستر پر لاکر دینے کے دس روپے لیتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے خاکروب کو خوب ڈانٹا۔ اس کے بعد اگلے دن وہ راؤنڈ پر گئے تو مریض نے ہاتھ جوڑ کر کہا کہ اب وہ خاموشی سے دس روپے دے دیا کرے گا۔ مہربانی کرکے وہ خاکروب کو کچھ نہ کہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے وجہ پوچھی تو اس نے کہا کہ اب تو وہ پیشاب کا برتن لاکر ہی نہیں دیتا اور وہ اذیت اٹھاتے رہتے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب نے خاکروب کو بلا کر اس سے پوچھ گچھ کی تو اس نے صاف کہہ دیا کہ وہ کیا کرے، وارڈ میں ساٹھ مریض ہیں اور چھ برتن ہیں۔ ایسے میں دیر سویر ہوجاتی ہے۔ اس کا کوئی قصور نہیں۔ اس کے جواب میں وہ کیا کرسکتے تھے۔ اسی طرح انھوں نے ایک اور واقعہ سنایا کہ ایک مریض نے ایک دفعہ طبی معائنے کے دوران میں ڈرتے ڈرتے یہ بتایا کہ ان کا چپڑاسی کوئی کیس ان تک پہنچانے کے پچاس روپے لیتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ میرا تو اس میں دس روپے کا حصہ ہے باقی ڈاکٹر صاحب کے پیسے ہیں۔ انھوں نے اس کے خلاف کارروائی کرنی چاہی تو باقی ڈاکٹروں نے انھیں منع کیا کہ کوئی فائدہ نہیں۔ اس نے کہیں نہیں جانا کیونکہ اسے عذیر بلوچ نے رکھوایا ہے۔ باقی یہاں اوپر سے نیچے تک سب ملے ہوتے ہیں۔ کسی کا کچھ نہیں ہونا۔
یہ وہ صورتحال ہے جس میں ہمارے ہاں حکمرانوں کی کرپشن کا رونا رویا جاتا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہماری حکمران کلاس ہی نہیں بلکہ پورے حکومتی انتظامی ڈھانچے کو کرپشن کی دیمک کھا چکی ہے۔ پھر معاملہ یوں نہیں کہ باقی معاشرے میں ہر جگہ لوگ آب زم زم سے دھلے ہوئے ہیں۔ اخلاقی طور پر ہمارا پورا معاشرہ گل سڑ چکا ہے۔
ہماری صورتحال یہ ہے کہ ناجائز منافع خوری کو تو ایک طرف رکھیے، حال یہ ہے کہ ہمارے ہاں نہ دوا خالص ملتی ہے نہ غذا ملاوٹ سے پاک ہے۔ نہ گاڑیوں کو چلانے والا پٹرول پورا اور خالص ملتا ہے نہ بچوں اور بڑوں کی غذا یعنی دودھ خالص ملتا ہے۔ غرض کس کس چیز کا رونا رویا جائے۔ مگر بات اگر معاشی معاملات تک محدود ہوتی تو پھر غنیمت تھا۔ ہمارے ہاں ہر ہر دائرے اور ہر ہر رشتے میں اخلاقی انحطاط پھیل چکا ہے۔ دفاتر ہی نہیں گھر، خاندان، تعلیمی ادارے سب اخلاقی پستی کے گڑھے میں گرتے چلے جارہے ہیں۔ تربیت کے ادارے تباہ ہوچکے ہیں یا پھر غلط رہنمائی کر رہے ہیں۔ ایسے میں کیا امید کی جائے اور کس سے امید کی جائے۔ لگتا ہے کہ ہر طرف اندھیرا چھا رہا ہے اور یہ اندھیرا گہرا ہوتا چلا جارہا ہے۔
قرآن کی روشنی
اس صورتحال میں امید کی کوئی کرن نظر آتی ہے تو وہ کتاب اللہ سے پیدا ہوتی ہے۔ اس عظیم کلام کو اللہ تعالیٰ نے خود ایک نور قرار دیا ہے، (المائدہ15:5)۔ قرآن مجید کی سورہ بقرہ آیت 259 میں اللہ تعالیٰ نے ایک واقعہ بیان کیا ہے۔ یہ واقعہ بنی اسرائیل کے ایک نبی کا ہے جن کا نام تو نہیں لیا گیا، مگر جو واقعہ ان کے حوالے سے بیان کیا گیا ہے، اس سے ملتا جلتا واقعہ قدیم صحف سماوی میں سے صرف حزقی ایل نبی کی کتاب میں موجود ہے۔ جن حالات اور جس کام کے پس منظر میں یہ واقعہ بیان کیا گیا ہے وہ بھی وہی ہیں جن کا سامنا حزقی ایل نبی کو تھا۔
اس بات کی تفصیل یہ ہے کہ حضرت داؤد اور حضرت سلیمان کے زمانے میں بنی اسرائیل اپنی طاقت اور عظمت کے عروج پر پہنچ چکے تھے۔ حضرت سلیمان نے ہیکل سلیمانی کی عظیم عبادت گاہ بھی تعمیر کی تھی جو یہود کے نزدیک وہی حیثیت رکھتی تھی جو مسلمانوں کے ہاں حرم پاک کی ہے۔ مگر ان کے بعد رفتہ رفتہ بنی اسرائیل اخلاقی زوال کا شکار ہوتے چلے گئے۔ صورتحال یہ ہوگئی کہ بنی اسرائیل اپنے ان نبیوں کے دشمن ہوگئے جو انھیں سمجھانے کے لیے اٹھائے گئے تھے۔ حضرت یرمیاہ جیسے جلیل القدر نبی کو پہلے کنویں میں الٹا لٹکایا گیا اور پھر جیل خانے میں قید کردیا گیا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا قہر بھڑک اٹھا۔ آشوری حکمران بخت نصر نے 587 قبل مسیح میں یروشلم پر حملہ کیا اور اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ ہیکل سلیمانی کو مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا۔ لاکھوں یہودیوں کو قتل کیا گیا۔ ان گنت خواتین کی آبرو ریزی کی گئی۔ اچھی طرح خونریزی کرنے اور یروشلم کو تباہ و برباد کرنے کے بعد بخت نصر باقی یہودیوں کو غلام بنا کر بابل لے گیا۔
بنی اسرائیل کے اس دورِ اسیری کے پانچویں برس اللہ تعالیٰ نے حضرت حزقی ایل کو نبی بنا کر اٹھایا اور بنی اسرائیل کی ہدایت کے لیے مبعوث کیا۔ یہ وہ دور تھا جب بنی اسرائیل پوری طرح مایوسی کا شکار تھے۔ ان کے لیے ہر امید اور ہر امکان ختم ہوچکا تھا۔ خود حضرت حزقی ایل کو بھی اس کی امید نہ تھی کہ کبھی بنی اسرائیل اس صورتحال سے نکل سکیں گے اور یروشلم دوبارہ آباد ہوسکے گا۔
چنانچہ یہی وہ پس منظر ہے جس میں حضرت حزقی ایل کو وہ مشاہدہ کرایا گیا جس کا ذکر قرآن مجید کی سورہ بقرہ آیت 259 میں کیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’یا اس شخص کی مثال ہے جس کا گذر ایک بستی پر ہوا جو اپنی چھتوں پر گر پڑی تھی۔ اس نے حیرت سے کہا: اس طرح فنا ہوجانے کے بعد اللہ اسے کس طرح دوبارہ زندہ کرے گا۔ اس پر اسے اللہ نے سو سال کے لیے موت دی، پھر اٹھایا۔(وہ اٹھا تو) پوچھا: کتنی مدت پڑے رہے؟اس نے جواب دیا: ایک دن یا اس سے کم۔ فرمایا: نہیں بلکہ سو سال اسی حالت میں تم پر گزر گئے۔ اب ذرا اپنے کھانے اور پینے کی چیزوں کو دیکھو، ان میں سے کوئی چیز سڑی نہیں۔(دوسری طرف) اپنے گدھے کو دیکھو(کہ ہم اس کو کس طرح زندہ کرتے ہیں، اس لیے کہ تمھیں اس بستی کے اٹھائے جانے پر یقین ہو) اور اس لیے کہ ہم لوگوں کے لیے تمھیں (امید کی) ایک نشانی بنا دیں، اور ہڈیوں کی طرف دیکھو، ہم کس طرح ان کو اٹھاتے ہیں اور پھر ان پر گوشت چڑھاتے ہیں۔ اس طرح جب حقیقت اس پر واضح ہوگئی تو وہ پکار اٹھا کہ (اب کوئی تردد نہیں رہا)، میں جانتا ہوں کہ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔‘‘
اس مشاہدے نے نبی کے دل کو امید اور یقین سے بھر دیا۔ انھوں نے اپنی قوم میں توبہ کی وہ منادی کی جس نے پورے بنی اسرائیل کو ہلا کر رکھ دیا۔ قوم نے اپنے گناہوں سے توبہ کی جن کی بنا پر وہ اس حال کو پہنچے تھے۔ اس کے بعد اللہ کا فضل ہوا۔ ایران کے بادشاہ سائرس اعظم یا خورس اعظم جنھیں قرآن مجید ذوالقرنین کہتا ہے، انھوں نے عراق کے آشوری حکمرانوں کو شکست دی۔ وہ ایک نیک دل بادشاہ تھے۔ انھوں نے بنی اسرائیل کو عراقیوں کی قید سے رہائی دلوائی اور یروشلم جانے کی اجازت دے دی۔ چنانچہ بنی اسرائیل نے دوبارہ یروشلم کو آباد کردیا۔
ہمارے لیے کرنے کا کام
پیغمبروں کی تاریخ کا یہ واقعہ اپنے اندر ایک بھرپور سبق رکھتا ہے۔ وہ سبق یہ ہے کہ قوم کی لیڈرشپ کو کبھی مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ اپنی قوم میں ایمان اور اخلاق کی دعوت کا صور پھونکتے رہنا چاہیے۔ جب قوم کا ایک قابل قدر طبقہ اس دعوت کو قبول کرلیتا ہے تو پھر اللہ کی مدد آتی ہے۔ ایسے حالات پیدا ہو جاتے ہیں کہ سیاسی، معاشی اور معاشرتی مسائل ختم ہوجاتے ہیں۔ مگر کسی مسلم قوم کے لیے تبدیلی کا نقطہ آغاز کوئی سیاسی اچھل کو د یا کوئی سماجی تحریک اور معاشی تحریک نہیں بلکہ ایمان و اخلاق کا وہ پیغام ہے جو قرآن مجید کی دعوت ہے۔ اس دعوت پر آخرت میں فرد کی نجات موقوف ہے اور اسی دعوت پر دنیا میں قوم کی فلاح پوشیدہ ہے۔ لیکن یہ کام ایک طویل اور خاموش جدوجہد کا تقاضا کرتا ہے۔ اس کا نشانہ فرد ہوتا ہے۔ اس کا ہدف لوگوں کی سوچ کو بدلنا ہوتا ہے۔ اس کا مقصد لوگوں کو ان کے اندھے تعصبات سے اوپر اٹھانا ہوتا ہے۔ ان کی خواہشات اور مفاد سے انھیں بالاتر کرنا ہوتا ہے۔ انھیں انانیت اور نفسانیت کے بجائے بندگی، اخلاص اوراخلاق عالیہ کے راستے پر ڈالنا ہوتا ہے۔ خدا کی ذات کوان کے لیے سب سے اہم بنانا ہوتا ہے۔ آخرت کی پیشی کو ان کا سب سے بڑا مسئلہ بنانا ہوتا ہے۔ رسول کی اتباع کو ہر دوسری پیروی سے اہم تر کرنا ہوتا ہے۔ خدا کے کلام کو ہر دوسرے کلام کے مقابلے میں سب سے برتر بنانا ہوتا ہے۔
ظاہر ہے کہ تعصبات، خواہشات، مفادات اور انانیت میں جکڑے لوگوں کو یہ بات سمجھانا آسان نہیں۔ مگر سچ بات یہ ہے کہ اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ موجود ہی نہیں ہے۔ جو خیر نکلے گا وہ اسی راہ پر چلنے سے نکلے گا۔ دوسرا ہر راستہ تباہی کو بڑھانے والا ہی ثابت ہوگا جیسا کہ ماضی میں ہوتا رہا ہے۔ لہٰذا ایمان و اخلاق کی اسی دعوت کا راستہ ہم نے اپنے لیے چنا ہے اور اسی کی طرف ہم دوسروں کو بلا رہے ہیں۔ اللہ نے چاہا تو زیادہ دن نہیں گزریں گے اور ہماری قوم ایک بہتر وقت دیکھے گی۔
جہاں رہیں مخلوق خدا کے لیے باعثِ رحمت بن کر رہیں، باعثِ آزار نہ بنیں۔