ذہنی سکون کا راز کیا ہے؟ ۔ خطیب احمد
میں چند ماہ قبل گوجرانولہ اوپن یونیورسٹی گیا پاس ہی ایک مسجد میں نماز جمعہ ادا کی تو باہر جوتوں والی جگہ سے میرا سینڈل غائب تھا جو میں نے انہی دنوں بڑے شوق سے خریدا تھا۔ چوری کرنے والے کو دعا دی کہ اللہ تمہیں پہننا نصیب کرے اور اس بات کا انتظار کیے بغیر کہ سب نمازی چلے جائیں تو جو کوئی جوتا پڑا رہ جائے وہ پہنوں وہاں سے ایک سلیپر پہنی اور گاؤں آگیا۔
شعوری و لاشعوری طور پر میں اسی دن اور اسی وقت سے محسوس کرتا تھا جب بھی میں وہ سلیپر پہنتا ہوں تو ذہنی بے سکونی و اضطراب کا شکار رہتا ہوں۔ میرے ضمیر پر شاید اس سے بڑا کوئی بوجھ نہ تھا کہ میں نے بھی وہی کام کیا جو کسی نے میرا جوتا اٹھا کر کیا تھا مجھ میں اور اس میں کیا فرق بچا؟ اس بات کو کئی ماہ گزر چکے تھے مگر میرے ذہن سے وہ بات نہیں نکل رہی تھی۔ وہ ایک بڑی جامعہ مسجد تھی میں اب کیسے وہاں جاؤں اور اس سلیپر کے مالک کو تلاش کرکے اس سے معافی مانگوں اسے جوتا یا اس کی قیمت کیسے ادا کروں عجیب سے مخمصے میں تھا اور نہ یہ بات کسی طرح ذہن سے نکل رہی تھی۔
آج ظہر پڑھی مسجد سے باہر جوتے پڑے دیکھے تو وہ جوتا جیسے میرے اعصاب پر سوار ہوگیا۔ میں نے گھر آکر وہ سلیپر مسجد کے غسل خانے کے جوتوں میں لے جا کر رکھ دیا اور اللہ سے معافی مانگی کہ یا اللہ مجھے میرے اس گناہ پر معاف فرما دے اور میری اس اپنے تئیں رجوع کی کوشش کو اپنی بارگاہ میں قبول فرما میں آئندہ ایسی کوئی غلطی نہیں کروں گا۔
یقین مانیں اسی لمحے میرا دل و دماغ اتنا ہلکا اور پرسکون ہوگیا جتنا عمرہ کے وقت بیت اللہ کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ کر بھی نہ ہوا تھا۔ میں نے ذہنی سکون کا یہ راز پا لیا کہ ہماری عبادات صدقات خیرات اگر ہمیں ذہنی سکون نہیں دے رہے نماز و دعا میں دل نہیں لگتا یکسوئی نہیں قائم ہو پاتی تو کہیں نہ کہیں کوئی گڑبڑ ہے جسے درست کرنا از حد ضروری ہے۔ ضرور کسی کا دل دکھایا ہوگا، کسی سے ناانصافی کی ہوگی، کسی کا حق کھایا ہوگا، کوئی وعدہ خلافی کی ہوگی، کوئی چوری کی ہوگی…….، کسی سے خیانت کی ہوگی، کسی کو دھوکا دیا ہوگا، کسی پر بہتان باندھا ہوگا، زندگی میں کبھی کسی پر کوئی جھوٹا کیس کیا ہوگا، کہیں کوئی جھوٹی گواہی دی ہوگی، کہیں اللہ کی ذات کے ساتھ شرک کیا ہوگا، سود کھایا ہوگا، رشوت کھائی ہوگی، زنا کیا ہوگا، ناجائز منافع لیا ہوگا، نوکری کے لیے رشوت دے کر کسی حقدار کا حق مارا ہوگا، اور صدق دل سے توبہ کرنے سے قبل اس فرد سے کھلے دل سے معافی نہ مانگی ہوگی۔ رشوت دے کر یا سفارش سے لی گئی نوکری چھوڑ دینے پر ہی شاید سکون آئے اور رزق میں برکت ہو۔
کچھ معاملات میں معافی مانگی جاسکتی ہے مگر جہاں مالی یا مادی چیزوں کے لین دین میں گڑبڑ کی ہو زمین پر قبضہ کیا ہو کسی کے پیسے کھائے ہوں وہ ہر صورت واپس کر کے ہی ذہنی سکون حاصل ہوگا۔ اور اللہ سے معافی ملے گی ویسے جو مرضی کرتے رہیں جتنی مرضی عبادات خیرات کریں اس گناہ کی معافی ممکن نہیں وہ اپنی جگہ قائم رہے گا اور ضمیر کو بوجھ تلے ہی رکھے گا۔ ہماری زبان سے کسی کا دل دکھا ہے تو اس سے ہر صورت بغیر کسی صفائی کے معافی مانگنی ہوگی وہ معاف کرے یا نہ کرے، ہمارے ضمیر کو کسی حد تک سکون مل جائے گا اور کل روز محشر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں بھی عرض کر سکیں گے کہ یا اللہ میں نے تو کوشش کی تھی اور آپ جانتے ہیں کہ دل سے معافی مانگی تھی جو نقصان کیا تھا اس کا ازالہ بھی نیک نیتی سے کر دیا تھا۔ آپ معاف فرما دیجیے اور اس گناہ پر پکڑ نہ کیجیے۔ چنانچہ ضروری ہے کہ عبادات کے ساتھ ماضی میں کے گئے بظاہر معمولی یا سنگین نوعیت کے غلط معاملات کو بھی ممکنہ حد تک درست کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ سے معافی مانگی جائے اور جو جرم کیا ہے اس کی تلافی کی جائے۔ یہی اللہ تعالیٰ کی بخشش اور ذہنی سکون حاصل کرنے کا طریقہ ہے۔