یور ٹائم اسٹارٹس ناؤ ۔ پروفیسر محمد عقیل
جب ایک طالب علم امتحان دینے جاتا ہے تو اس کی ابتدا اور انتہا کا وقت مقرر ہوتا ہے۔ کوئی شخص نہ تو اس مقررہ وقت سے پہلے امتحان شروع کرسکتا اور نہ اس مقررہ وقت کے بعد امتحان جاری رکھ سکتا ہے۔
جس طرح دنیوی امتحانات کا ایک وقت مقرر ہے تو اسی طرح آخرت کے امتحان کا بھی ٹیسٹ مقررہ وقت پر شروع ہوتا اور اس وقت کے بعد ختم ہوجاتا ہے۔ مثال کے طور پر غیبت کے ٹیسٹ کا وقت ایک خاتون کے لئے اس وقت شروع ہوتا ہے جب اسے اپنے ارد گرد کے ماحول میں لوگوں سے حسد، جلن اور بدگمانی ہو۔ جونہی وہ اس ماحول سے نکل کر ایک دوردراز ملک میں جا کر رہنا شروع کرتی ہے جہاں کوئی نہیں جس سے وہ باتیں کرسکے تو اس ٹیسٹ کا وقت ختم ہوچکا ہوتا ہے۔ اب اگر اس نے ناموافق حالات میں تو دل کھول کر اپنے مخالفین کی برائی کی۔ لیکن جب اسے تنہائی ملی اور کوئی غیبت کرنے والا نہ ملا تو خاموش ہوگئی اور یہ سمجھنے لگی کہ میں تو غیبت نہیں کرتی تو غلط فہمی کا شکار ہے۔ اس نے غیبت کے ٹیسٹ پیریڈ میں ناکامی کا مظاہرہ کیا اور فیل ہوگئی۔ اب وہ خاموش اس لئے ہے کہ حالات بدل گئے ہیں۔
جس طرح نمازوں کا وقت مقرر ہے، روزے کا متعین وقت ہے، زکوٰۃ کی ادائیگی کا ایک خاص موقع ہے اور حج کا مخصوص موسم ہے ایسے ہی دین کے بیشتر امتحانات کا موقع متعین وقت میں ہی ہوتا ہے۔ والدین کے ساتھ حسن سلوک کا موقع ان کی زندگی تک ہے موت کے بعد نہیں، عفو و درگذر کے ٹیسٹ کا آغاز اسی وقت ہوتا ہے جب کسی کے خلاف غصہ عروج پر ہو، شوہر یا بیوی کے حقوق کی ادائیگی کا ٹیسٹ ازدواجی زندگی کے دوران ہے۔
ہم سب کو چاہئے کہ اپنے اپنے امتحانات اور ان کے اوقات کو پہنچانیں۔ ہم دیکھیں کہ اس وقت ہم کس قسم کی آزمائش میں ہیں اور پھر اسی مناسبت سے اپنی کارکردگی پیش کرنے کی کوشش کریں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ کسی خاص معاملے یا مسئلے کے امتحان کا وقت آئے اور گزر بھی جائے لیکن ہمیں پتا تک نہ چلے۔ امتحانی اوقات کو پہچاننا بذات خود ایک آزمائش ہے۔ جو اس آزمائش میں ناکام ہو گیا وہ امتحان میں کامیاب ہو ہی نہیں سکتا۔