یتیم قوم ۔ ابویحییٰ
بعض بچے پیدائش کے ساتھ ہی یتیم ہوجاتے ہیں۔ پاکستانی قوم کا معاملہ بھی یہی ہے۔ یہ قوم اپنی پیدائش کے فوراً بعد ابتدائی قائدین کے رخصت ہوجانے سے یتیم ہوگئی تھی۔ اس کے بعد اس قوم کے ساتھ وہی ہوا جو بے درد زمانے میں یتیموں کے ساتھ ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ قوم کے دو سگے بھائیوں کو ظالم زمانے نے جدا کر دیا اور مشرقی پاکستان علیحدہ ہوگیا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس علیحدگی کے ساتھ بنگلہ دیشی قوم کی یتیمی ختم ہوگئی۔ اسے وہ قائدین مل گئے جنھوں نے اسے سیاسی استحکام دینے کے علاوہ آج اسے اس خطے کی سب سے تیز ترقی کرنے والی معیشتوں میں شامل کر دیا۔
دوسری طرف پاکستانی قوم اسی یتیمی کی بنا پر اپنے قیام کے ابتدائی دنوں ہی سے کسی نہ کسی بحران کا شکار رہی ہے۔ مستقل سیاسی عدم استحکام، مارشل لا حکومتوں، آئین کی منسوخی و معطلی، منتخب وزرائے اعظم کی برطرفی سے لے کر معاشی بحرانوں، غربت، بے روزگاری، مہنگائی کے ہاتھوں عام آدمی کی پامالی، کرپشن کی ترقی، اخلاقی پستی اور تعلیمی میدان میں زبوں حالی تک ہر خرابی کا ہمیں سامنا کرنا پڑا ہے۔
تاہم یہی وہ ملک ہے جس کے تمام ادارے ما شاء اللہ دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کر رہے ہیں۔ پاکستان میں وزرائے اعظم، اراکین سینٹ و قومی اسمبلی اور دیگر عہدیداران کی تنخواہیں بدترین معاشی بحرانوں کے دور میں بھی بڑھتی رہی ہیں اور ان کا استحقاق و حق مراعات بھی قائم رہتا ہے۔ یہی معاملہ عدلیہ، مقتدرہ، انتظامیہ اور جاگیرداروں اور صنعتکاروں کا رہا ہے کہ سب کی مراعات، تحفظ اور ترقی کا سلسلہ کسی دور میں نہیں رکا۔ کبھی کسی کو نقصان ہوا تو باہمی چپقلش کی شکل میں ہوا ورنہ تو ایک بدحال قوم کے یہ طبقات ہمیشہ ہر خرابی سے محفوظ رہے ہیں۔ اس کا سبب ظاہر ہے کہ یہی ہے کہ ان میں سے کوئی یتیم نہیں ہے۔ یہ اپنے مفادات کا پورا شعور رکھتے ہیں اور ان کی اولین ترجیح اپنے مفادات کا تحفظ ہے۔ یہ صرف پاکستانی قوم ہے جس کا کوئی والی وارث نہیں ہے نہ کوئی اس کے مفادات کا تحفظ کرنے والا ہے۔
پاکستانی قوم کے یتیم ہونے کا سبب یہ نہیں تھا کہ قائد اعظم یا دیگر بانیان پاکستان کا انتقال ہوگیا تھا۔ قوموں کے لیڈر فانی ہی ہوا کرتے ہیں۔ اصل میں یہ قوم کے اندر ایک قوم ہونے کا احساس ہوتا ہے جو اسے ایک کے بعد دوسرا لیڈر عطا کر دیتا ہے۔ مسلمانوں میں ایک قوم ہونے کا احساس سب سے پہلے جس شخصیت نے پیدا کیا وہ سرسید احمد خان تھے۔ انھوں نے یہ احساس پیدا کرنے کے ساتھ لوگوں میں قومی درد بھی پیدا کیا۔ اس سے آگے بڑھ کر انھوں نے علی گڑھ کی شکل میں جو تعلیمی تحریک شروع کی اس نے برصغیر میں صف اول اور صف دوم کے ایسے لیڈروں کی ایک پوری کھیپ پیدا کر دی جن میں قومیت کا احساس زندہ تھا۔ ان میں فکری سطح پر سب سے نمایاں نام علامہ اقبال کا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ پاکستان اقبال ہی کا فکری پروڈکٹ ہے۔
بدقسمتی سے بعد میں آنے والے لیڈروں نے اس قوم کی ذہانتوں کو عالم اسلام کے مسائل کے پیچھے لگا دیا یا پھر ذیلی قومیتوں کے مفادات کے تحفظ میں الجھا دیا۔ عملی سطح پر بھی کوئی لیڈر ایسا نہیں اٹھا جو سرسید کی طرح تعلیم کے میدان کو اپنی توانائی کا مرکز بنا کر ان میں قومی درد پیدا کرتا۔ ان کی سیرت و اخلاق کو بہتر بناتا یا ان کے علمی اور فکری شعور کو بلند کرتا۔ یہ صورتحال آج کے دن تک نہیں بدلی ہے۔ اب صرف یہ ہوا ہے کہ پہلے ہمارے لیڈر جس باہمی تصادم کو زبان، نسل اور صوبائی بنیادوں پر فروغ دے رہے تھے، اب اسے مختلف طبقات اور اداروں کی باہمی نفرت کی شکل میں فروغ دیا جارہا ہے۔ پہلے تصادم کا نتیجہ پاکستان کی تقسیم اور صوبائی منافرت کی شکل میں نکلا تھا۔ جبکہ دوسرے تصادم کا نتیجہ پہلے سے بھی زیادہ برا نکلے گا۔
اس آنے والی تباہی سے بچنے کا ایک ہی راستہ ہے۔ قومی شعور اور درد رکھنے والے کچھ لوگ سرسید کی طرح ایک دفعہ پھر تعلیم کا راستہ اختیار کرلیں۔ وہ لوگوں میں قومی درد پیدا کریں۔ وہ ان کے اخلاق اور سیرت کی تعمیر کریں۔ وہ لوگوں کو باہمی جنگ و جدل سے نکال کر قومی تعمیر کے راستے پر ڈالیں۔ قومیتوں اور اداروں کی جنگ میں نوجوانوں کو الجھانے کے بجائے انھیں تعلیم اور کردار کے زیور سے آراستہ کریں۔
ہمیں سرسید کے مذہبی خیالات سے کوئی اتفاق نہیں۔ لیکن قومی خدمت کے پہلو سے ہم انھیں برصغیر کا سب سے بڑا مسلم لیڈر سمجھتے ہیں۔ وہ نہ ہوتے تو آج برصغیر میں مسلمانوں کا کوئی علیحدہ وطن نہ ہوتا۔ کوئی اقبال ہوتا نہ کوئی محمد علی جناح پیدا ہوتا۔ ہندوستان میں مسلمان دلتوں سے بھی بدتر حالت میں زندگی گزار رہے ہوتے۔
آنے والے دنوں میں انسانیت ایک نئے دور میں داخل ہو رہی ہے۔ انفارمیش ایج، ایج آف آٹومیشن میں بدلنے جارہی ہے۔ اس کے نتیجے میں آنے والے دنوں میں دنیا مکمل طور پر بدلنے والی ہے۔ اگلے بیس برسوں میں ایک نئی عالمی غلامی اور بدترین معاشی استحصال کا دور شروع ہونے جارہا ہے۔ اگر ہم نے آج کوئی سرسید پیدا نہیں کیا اور کسی طرح آنے والے دنوں میں ہمارا قومی وجود باقی بھی رہ گیا تو غلامی اور استحصال کی ایک نئی قسم کے سوا کوئی اور چیز ہماری منتظر نہیں ہے۔ یہ نوشتہئ دیوار ہے۔ اس نوشتہئ دیوار کو کوئی سرسید ثانی ہی مٹا سکتا ہے۔ ورنہ ایک یتیم قوم کو غلامی اور استحصال کی بدترین قسم کے لیے تیار رہنا چاہیے۔