یہودیوں کی بغاوت ۔ ابویحییٰ
[یہ ایک اور خط ہے جو میری کتاب ’’جب زندگی شروع ہوگی‘‘کے خلاف انٹرنیٹ پر منفی پروپیگنڈا کرنے والے ایک اور صاحب کو لکھا گیا۔تعصبات اور فرقہ واریت کی روایت کے عین مطابق انھوں میری نیت اور محرکات کو بھی پوری طرح موضوع بنایا۔ البتہ تنقید انھوں نے وہ استعمال کی جو بعض دوسرے لوگوں نے لکھی تھی اور اسے پورے اعتماد سے اپنے نام سے چھاپ دیا۔ میں نے انھی چیزوں کی طرف انھیں کچھ توجہ دلائی ہے۔ ساتھ میں ان کے ایک اعتراض کا جواب بھی دیا۔ میرا مقصد کسی فرد کے خلاف مہم چلانا نہیں قارئین کو ان رویوں کی طرف متوجہ کرنا ہے جو معاشرے میں فرقہ واریت کو فروغ دیتے ہیں اس لیے ان صاحب کا نام اور متعلقہ تفصیلات حذف کرکے اب یہ خط افادہ عام کے لیے قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔]
محترم ۔۔۔۔۔۔ صاحب
السلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ
آپ کا شکریہ کہ آپ نے اپنا مضمون مجھے بھیجا۔ گرچہ یہ پہلے بھی میں ایک دو دوستوں کے توجہ دلانے پر پڑھ چکا ہوں۔ آپ کی تحریر اور اسی نوعیت کی بعض دیگر تحریریں پڑھ کر دل میں جو پہلا احساس جنم لیتا ہے وہ یہ ہے کہ آپ لوگ خوامخواہ ایک صدی سے بریلوی حضرات کے خلاف سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے علم غیب کے حوالے سے محاذ کھول کر انھیں گمراہ بلکہ مشرک قرار دیتے ہیں۔ آپ تو ما شاء اللہ خود عالم الغیب ہیں جن پر فرشتے اترتے اور وحی نازل ہوتی ہے۔ ماکان و مایکون اور حاضر و غائب کا سارا علم آپ کو حاصل ہے۔ جس کی بنیاد پر آپ لوگوں کی نیت، دل کا حال اور اعمال کے محرکات تک جان لیتے ہیں۔ اور پھر بڑے فخر سے مضمون لکھ کر اس کا اعلان کرتے ہیں۔
تاہم آپ نے میری نیت اور محرکات پر اپنے ’’علم غیب‘‘ کی بنیاد پر جو کچھ لکھا ہے اس کا کوئی جواب دینے کے بجائے میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس ہدایت پر عمل کرنا پسند کرتا ہوں کہ ایسے معاملات میں جواب نہ دینے سے فرشتے مدافعت کرتے ہیں۔ اسی لیے میں ایسی بہتان تراشی پر اللہ کی عافیت مانگ کر خاموش رہنا ہی پسند کرتا ہوں۔
باقی نفس مضمون میں کوئی ایسی بات ہوتی جس کا جواب دیا جاسکے تو مجھے بڑی خوشی ہوتی۔ مگر دراصل اس میں موجود تنقیدی نکات ۔۔۔صاحب کی تنقید کا سرقہ اور الزام و بہتان پر مبنی لہجہ۔۔۔ صاحب کے ساتھ ساتھ ۔۔۔ صاحب کے مضمون کا چربہ ہے۔ مجھے بتائیے کہ سرقے اور چربے پر مشتمل اس مضمون کا میں کیا جواب دوں؟ سوائے اس کے کہ اس سرقے کو معمولی رد و بدل کے ساتھ اپنے نام سے چھاپنے پر آپ کے حوصلے کی داد دوں۔ بلاشبہ اس ہمت پر آپ واقعی داد کے مستحق ہیں۔ رہے اس مضمون کے مشمولات تو اس میں سے جو امور وضاحت طلب ہیں، لوگ پوچھتے رہتے ہیں اور میں جواب دیتا رہا ہوں۔ لیکن ظاہر ہے سوال پوچھنے والوں کو جواب دیا جاتا ہے۔ دوسروں کی چیزیں بلا حوالہ اپنے نام سے چھاپنے والوں کو خدا خوفی کی نصیحت ہی کی جاسکتی ہے۔
تاہم آپ چونکہ ایک نوجوان لگتے ہیں اس لیے آپ کی حوصلہ افزائی کے لیے اس واحد علمی مشقت کا جواب البتہ ضرور دوں گا جو اس مضمون میں آپ نے اٹھائی ہے۔ یعنی مولانا حفظ الرحمن کا اقتباس نقل کرکے یہ ثابت کیا ہے کہ یہود نے بخت نصر کے خلاف بغاوت نہیں کی تھی اور یہود بخت نصر کے حملے سے پہلے اس کے باج گزار نہیں تھے۔
جس طرح آپ اپنی تنقید میں دعویٰ کر رہے ہیں، میں نے ’’تیسری روشنی‘‘ میں یہ کہیں نہیں لکھا کہ ’’مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی رحمہ اللہ نے قصص القرآن میں اس واقع کو اسی طرح بیان کیا ہے‘‘۔ میرے منہ میں اپنے الفاظ نہ ٹھونسیے۔ میرے الفاظ درج ذیل تھے:
’’اگر اس تفصیل کے ساتھ اس دور کے انبیاء کی تنبیہات کو بھی پڑھنا ہے تو مولانا مودودی کی تفہیم القرآن یا پھر مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی کی قصص القرآن کا مطالعہ کیجیے جس میں دیگر انبیا کے ساتھ بخت نصر (جس کے ہاتھوں بنی اسرائیل پر خدائی عذاب نازل ہوا) کے ہم عصر نبی حضرت یرمیاہ علیہ السلام کے مواعظ بھی نقل کیے گئے ہیں۔‘‘، صفحہ83
میں اس پیراگراف میں وہ نہیں کہہ رہا جو آپ سمجھے ہیں، یہ عرض کر رہا ہوں کہ یرمیاہ نبی کا ذکر کرنے والا میں پہلا آدمی نہیں ہوں۔ بلکہ بڑے بڑے اہل علم نے ان کا ذکر کیا ہے۔ یہ اگر جرم ہے تو اس کے مرتکب بڑے بڑے لوگ ہوئے ہیں۔
باقی یہ بات کہ اصل واقعہ کیا ہے تو عرض یہ ہے کہ جو بات میں نے لکھی ہے وہی درست ہے۔ یعنی یہود بخت نصر کے باج گزار تھے۔ وہ ایمان و اخلاق کے معاملے میں اپنی اصلاح کرنے کے بجائے بغاوت کو اپنے مسئلے کا حل سمجھ رہے تھے۔ یرمیاہ نبی نے انھیں بہت سمجھایا مگر وہ بعض نہ آئے اور انھی کے دشمن بن گئے۔ اس معاملے میں میرا ماخذ حضرت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی نہیں بلکہ وہ کتاب ہے جہاں سے خود سیوہاروی صاحب نے یہ سارے مضامین لیے ہیں یعنی بائبل۔ اب ذرا کچھ وقت نکالیے، بائبل کو کھنگالیے۔ لکھنے سے پہلے پڑھنا اور تنقید سے پہلے تحقیق کرنا سیکھیے۔پ ھر وہاں کے اقتباسات نقل کرکے اس گنہگار کو بتائیے کہ تم نے غلط بیانی کی ہے۔ پھر میں بھی بائبل کے وہ اقتباس نقل کردوں گا جن میں یہ تاریخی حقیقت بیان ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ کسی اور موضوع پر میں آپ سے کسی مکالمے کے لیے خود کو آمادہ نہیں پاتا۔
آپ شاید اس عذر کی آڑ میں پناہ لیں کہ بائبل پڑھنا گناہ کا کام ہے تو اطمینان رکھیں، آپ عالم آدمی ہیں۔ زمانہ قدیم سے لے کر آج کے دن تک علماء قرآن کے ان بیانات کی وضاحت کے لیے جہاں یہود و نصاریٰ کا حوالہ ہوتا ہے، بائبل ہی پڑھتے اور نقل کرتے آرہے ہیں۔
بہرحال میں آپ سے وہی کہوں گا جو یرمیاہ نبی نے اپنی قوم سے کہا تھا۔ چوری کرنا بری بات ہے۔ جھوٹے الزام و بہتان لگانا بدترین جرم ہے۔ آپ سے توقع ہے کہ وہی کریں گے جو یہود نے کیا تھا۔ یعنی سمجھانے والے کے دشمن ہوگئے تھے۔ اطمینان رکھیے اس کے بعد اللہ تعالیٰ بھی وہی کریں گے جو انھوں نے یہود کے ساتھ کیا تھا۔
آخر میں آپ سے بھی وہی درخواست ہے جو۔۔۔ صاحب سے کی تھی۔ اختلاف ہے تو اسے علم تک محدود رکھیے۔ کسی کے دل اور نیت کے بارے میں فیصلے دینا صرف اللہ اور اس کے رسول کا حق ہوتا ہے۔ ایسا مت کیجیے۔ یہ کریں گے تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے ہاں جواب دینا ہوگا کہ تم نے کسی کی نیت اور اس کے کسی کام کے محرکات کا فیصلہ کس بنیاد پر کر دیا تھا۔
کبھی منفی نفسیات سے نکل کر تنہائی میں بیٹھ کر سوچیں کہ روزِ قیامت پروردگار عالم نے پوچھ لیا کہ تو نے میرے بندے کے دل کا حال کیسے جان لیا تھا تو کیا جواب دیں گے۔ میری بات نہیں سمجھتے تو جان لیجیے اللہ کے حضور پیشی اتنا آسان کام نہیں جتنا آپ نے سمجھ رکھا ہے۔ بہتان ان جرائم میں سے ایک ہے جو ایمان سلب کرا دیتا ہے۔
صرف سو برس بعد ہم میں سے ہر شخص اپنے کاموں کے ہمراہ اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہوگا۔ وہاں غلط علمی اجتہادات پر معافی بلکہ ایک اجر کی یقین دہانی تو سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کرا چکے ہیں، مگر اخلاقی جرائم کی معافی کا کوئی امکان نہیں۔ کاش آپ کو اس حقیقت کا احساس ہوجائے۔ ایسا ہوا تو یہ میری محنت کا حاصل ہوگا۔ ایسا نہ ہوا توآپ ہزرہ سرائی فرماتے رہیں۔ ہم صبر کرتے رہیں گے۔ یہاں تک کہ وہ دن شروع ہوجائے گا جس کا عذاب اور ثواب کبھی ختم نہیں ہوگا۔ فَیَوْمَءِذٍ لَّا یُعَذِّبُ عَذَابَہُ أَحَدٌ ۔وَلَا یُوثِقُ وَثَاقَہُ أَحَدٌ۔
والسلام علیکم
[ناقد موصوف نے اس خط کا کوئی جواب نہیں دیا۔ البتہ پروپیگنڈے کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ میں بہرحال اپنے اُن تمام محسنوں کی طرح اِن کے لیے بھی دعا گو ہوں جو اپنی آخرت کی بربادی کی قیمت پر اپنی نیکیاں مجھے دے رہے اور میرے گناہ خود سمیٹ رہے ہیں۔ ابو یحییٰ]