وہ بھی گرا نہیں جو گرا پھر سنبھل گیا ۔ ابویحییٰ
اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب قرآن کریم میں اپنے بندوں کو یہ امید دلائی ہے کہ وہ بڑے سے بڑے گناہ کے بعد بھی مایوس نہ ہوں بلکہ اس کی طرف رجوع کریں تو وہ اللہ تعالیٰ کو معاف کرنے والا پائیں گے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
’’اے نبی کہہ دو: اے میرے بندوں، جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے! اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں، اللہ تمام گناہوں کوبخش دے گا، وہ بڑا ہی بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔ اور رجوع کرو اپنے رب کی طرف اور اس کے مطیع بن جاؤ قبل اس کے کہ تم پر عذاب آدھمکے، پھر تمھاری کوئی مدد نہیں کی جائے گی‘‘(الزمر39:53-54)
جو لوگ گناہ کا ارتکاب کرلیتے ہیں اور فوراً توبہ کرتے ہیں انھیں اللہ تعالیٰ نے یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ ان کے گناہ لازماً بخش دیے جاتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’اللہ پر توبہ قبول کرنے کی ذمہ داری تو انہی کے لیے ہے جو جہالت سے مغلوب ہوکر برائی کا ارتکاب کر بیٹھتے ہیں پھر جلدی ہی توبہ کر لیتے ہیں۔ وہی ہے جن کی توبہ اللہ قبول فرماتا ہے۔ اور اللہ علم والا اور حکمت والا ہے۔ اور ان لوگوں کی توبہ نہیں ہے جو برابر برائی کرتے رہے یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کی موت سر پر آن کھڑی ہوئی تو بولا کہ اب میں نے توبہ کرلی۔ اور نہ ان لوگوں کی توبہ ہے جو کفر ہی پر مر جاتے ہیں۔ ان کے لیے ہم نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔‘‘(النسا4: 17-18)
لیکن یہ بات بھی یاد رہے کہ مسلسل گناہ کرنے والوں کو اس آیت میں شدید وعید بھی دی گئی ہے۔ آپ نے خاص طور پر گناہ کبیرہ کا ذکر کیا ہے۔ قرآن کریم میں بتایا گیا ہے کہ تین سب سے بڑے گناہوں کے ارتکاب کے بعد بھی کوئی شخص توبہ کرلے تب بھی اس کی توبہ قبول کرلی جاتی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’اور جو نہ اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو پکارتے اور نہ اس جان کو، جس کو اللہ نے حرام ٹھہرایا، بغیر کسی حق کے قتل کرتے اور نہ بدکاری کرتے۔ اور جو کوئی ان باتوں کا مرتکب ہوگا وہ اپنے گناہوں کے انجام سے دوچار ہوگا۔ قیامت کے دن اس کے عذاب میں درجہ بدرجہ اضافہ کیا جائے گا اور وہ اس میں خوار ہوکر ہمیشہ رہے گا۔ مگر وہ جو توبہ کرلیں گے، ایمان لائیں گے اورعمل صالح کریں گے تو اللہ ان کی برائیوں کو بھلائیوں سے بدل دے گا اور اللہ بڑا بخشنے والا، مہربان ہے۔ اور جو توبہ کرتا ہے اور عمل صالح اختیار کرتا ہے وہ درحقیقت اللہ کی طرف لوٹتا ہے۔‘‘(الفرقان25:68-71)
غور فرمایے کہ ان آیات کے آخری حصے میں توبہ، تجدید ایمان اور نیکیوں پر استقامت کا صلہ یہ بیان ہورہا ہے کہ انسانوں کی برائیاں بھلائیوں سے بدل دی جاتی ہیں۔ یہ پروردگار عالم کی وہ رحیم، کریم اور شفیق ہستی ہے جس سے نہ کبھی مایوس ہونا چاہیے اور نہ کبھی توبہ کرنے میں دیر کرنی چاہیے۔ چاہے حج کے بعد کوئی گناہ کیا ہو یا اس سے پہلے۔
جہاں تک حج پر دوبارہ جانے کا تعلق ہے تو اس کا تعلق اللہ تعالیٰ کی حکمت اور مشیت سے ہے اور اس بات سے کہ انسان وہاں جانے کے لیے عالم اسباب میں کیا اہتمام کرتا ہے۔ حج کے بعد اگر کوئی شخص گناہ کرتا ہے اور فوراً توبہ کرتا ہے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ اس کی زندگی بدل گئی ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے انسان سرکشی، غفلت اور بے پروائی کا رویہ اختیار کرلے۔ یہ وہ زندگی ہے جو قابل مذمت ہے، چاہے حج سے پہلے ہو یا بعد۔ لیکن جو شخص گناہ کے بعد توبہ کرتا ہے وہ اپنے مومن ہونے کا ثبوت دیتا ہے۔