نبوت اور شریعت ۔ ابویحییٰ
محترم
السلام علیکم
درج ذیل تحریر میں اٹھائے گئے سوالوں کا جواب دے دیں۔
ندیم اعظم
کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ نبوت کا سلسلہ ختم نہ ہوتا تو نبی آج کے دور میں کیسے تبلیغ کرتے؟ یا سیکڑوں ہزاروں سال پہلے کے نبی آج آتے تو کیسے خدا کا پیغام پہنچاتے؟ کیا فقط خدا سے روشناس کرواتے یا قومی اور بین الاقوامی قوانین کی موجودگی میں شریعت بھی پیش کرتے؟ کیا یہ وہی ڈیڑھ ہزار سال پہلے پیش کی گئی شریعت ہوتی یا اس سے کچھ مختلف ہوتی؟
میں نے اس بارے میں کچھ علما اور مذہبی دانشوروں سے بات کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ مجہول خیال ہے۔ مذہب اس بارے میں بحث نہیں کرتا کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا۔ ہزاروں سال پہلے آنے والا مذہب جو بتاچکا، وہ حرف آخر ہے۔
میرا خیال ہے کہ (اگر خدا ہے تو) خدا نے (اور اگر خدا نہیں ہے تو) مقدس ہستیوں اور دور اندیش بندوں نے جس دنیا کے لیے قوانین بنائے تھے، وہ زیادہ سے زیادہ اٹھارہویں انیسویں صدی تک کے لیے مناسب تھے۔ قومی ریاستوں کی تشکیل، ترقی یافتہ معاشروں کے ظہور، صنفی اور نسلی امتیاز کے خاتمے کی تحریک، خلا کی تسخیر اور میڈیکل سائنس کی ترقی نے مذاہب کے فلسفے کو بری طرح زک پہنچائی ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ اسلام آج کے دور میں آتا تو خواتین کو گھر میں بند رہنے کے لیے نہ کہا جاتا، ان کی گواہی آدھی نہ ہوتی، وراثت میں حصہ کم نہ ہوتا، اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا حکم ہوتا، پسند کی شادی کی حوصلہ افزائی کی جاتی۔
کیا اکیسویں صدی میں آنے والا اسلام غلامی برقرار رکھتا؟ کیا غیر مذہب کے شہریوں سے جزیہ طلب کرتا؟ کیا مجرموں کے ہاتھ کاٹتا اور انھیں سنگسار کرتا؟
کیا اکیسویں صدی میں آنے والا کوئی نبی اقتدار حاصل کرنا چاہتا؟ اور اگر اقتدار مل جاتا تو حکومت کیسے کرتا؟ فرض کریں کہ مدینے جیسی ریاست بننے کے خواہش مند پاکستان کا حکمراں کوئی نبی ہوتا؟ وہ اقوام عالم کو کیسے تبلیغ کرتا؟ مسئلہ کشمیر کیسے حل کرتا؟ سود کے بغیر معیشت کیسے درست رکھتا؟ اسکینڈے نیویا کی ریاستوں سے بہتر فلاحی ریاست کیسے قائم کرتا؟
مجھے یہ بات بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ اسلام آخری الہامی مذہب کیوں تھا؟ اس لیے کہ انسان کا شعور اس مقام پر آگیا تھا کہ اس کے بعد مذہب کو ماننے والوں کی تعداد کم ہونی تھی، نہ ماننے والوں کو بڑھنا تھا۔ اب خدا بھی آسمان سے نیچے اتر آئے تو اسے اپنے آپ کو منوانے کے لیے کئی امتحانوں سے گزرنا ہوگا۔
میں خدا کو ماننے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہوں لیکن اسلام کو مانتا ہوں۔ اس طرح مانتا ہوں کہ جو ٹھیک ہے، وہ اسلام ہے۔ جو غلط ہے، وہ کفر ہے۔
ملا ازم یہ ہے کہ جو ملائیت ہے، وہ اسلام ہے۔ جو ملائیت نہیں ہے، وہ کفر ہے۔
ملائیت کا حال یہ ہے کہ گلیلیو نے جب بتایا کہ زمین سورج کے گرد گھوم رہی ہے تو پادریوں کا مذہب خطرے میں پڑگیا تھا۔ آج اسلام کا مرکز خانہ کعبہ ہے لیکن سوچیں کہ کل انسان چاند یا مریخ پر آباد ہوگیا تو کس طرف منہ کرکے نماز پڑھے گا؟ مذہب اس بات کا جواب نہیں دیتا کیونکہ ڈیڑھ ہزار سال پہلے یہ سوال پیدا نہیں ہوا تھا۔ آپ کسی ملا سے بات کرکے دیکھیں، وہ آج بھی اس بات کا جواب نہیں دے گا۔
مذہب کے پاس اکیسویں صدی کی دنیا کے بہت سے سوالات کے جواب نہیں ہیں۔ مذہبی علما اگر کسی سوال کا جواب دیتے ہیں تو اپنی فہم کے مطابق دیتے ہیں۔ ان کا فہم کسی نبی کے فہم جیسا نہیں۔ چنانچہ میں انھیں مذہب کا ترجمان ماننے سے انکار کرتا ہوں۔ میں ان کی تقلید کرنے سے انکار کرتا ہوں۔
جواب:
السلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ
یہ تحریر بھیجنے کا شکریہ۔ اٹھائے گئے نکات کا جواب دیا جاسکتا ہے۔ مذہب کا نقطہ نظر بھی واضح کیا جاسکتا ہے۔ مگر صاحب مضمون اسی تحریر میں فرماتے ہیں کہ وہ خدا کو ماننے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔جب معاملہ یہ ہو کہ آدمی خدا کو ماننے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہو تو پھر گفتگو نبوت اور شریعت پر نہیں ہونی چاہیے، خداکے وجود پر ہونی چاہیے۔اس کا سبب یہ ہے کہ ایک شخص نبیوں کے بھیجنے والے اور شریعت کے نازل کرنے والے کے بارے میں ہی میں شک و شبہ کا شکار ہے تو نبوت اور شریعت پر گفتگو کارِلا حاصل ہے۔ اس لیے گفتگوکی مناسب جگہ یہ ہے کہ وہ بتائیں کہ ان کے پاس خدا کے انکار اوراپنی تشکیک کی کیا وجوہات ہیں ؟ گفتگو تو اس پر ہونی چاہیے نہ کہ شریعت اور نبوت پر۔
البتہ وہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ خدا کے بارے میں ان کے ذہن میں شکوک ہی اس لیے پیدا ہوئے ہیں کہ خدا وہ ساری باتیں کہہ رہا ہے جو انھوں نے اپنی تحریر میں نقل کی ہیں اور وہ ان کے نزدیک غلط ہیں۔اگر ایسا ہے تو خدارا یہ سب کچھ پبلک میں لکھنے اور کہنے سے قبل تحقیق فرمالیتے تو وہ جان لیتے کہ یہ تمام باتیں یا تو خدا نے کہی نہیں ہیں یا پھر اس کی بات کی غلط ترجمانی کو خدا کی بات سمجھ لیا گیاہے۔ خدا کی طرف اپنا فہم یا انسانوں کا فہم منسوب کرکے خدا کے وجودپر شک کرنا کوئی معقول اورعلمی رویہ نہیں۔
ان کی بیان کردہ ہر بات کے بارے میں بتایا جاسکتا ہے کہ وہ اسلام کا غلط فہم ہے۔طوالت سے بچنے کے لیے ہم بطور مثال ان کاایک اعتراض نقل کرکے اپنی بات کو واضح کرتے ہیں۔انھوں نے اپنے مضمون میں یہ بات لکھی ہے کہ اسلام میں عورتو ں کی گواہی آدھی ہے۔ اس کے ساتھ انھوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ وہ مذہبی علماء کومذہب کا ترجمان ماننے سے انکار کرتے ہیں۔ اب لطف کی بات یہ ہے کہ عورت کی آدھی گواہی کی بات ہی علماء کرتے ہیں، اللہ کا کلام تو ایسی کسی بھی بات سے بالکل خالی ہے۔ اگر ہے تو بتایے کہ قرآن کی کس آیت اورکس سورت میں کہا گیا ہے کہ عورت کی گواہی آدھی ہے۔ یہ مثال اس حقیقت کو واضح کرنے کے لیے کافی ہے کہ ان کواصل مسئلہ مذہبی علماء سے ہیں اور اسے انھوں نے اللہ کے کھاتے میں ڈال دیا۔بھائی اللہ کا کلام تو موجود ہے۔ خدا تو اپنی کتاب میں بول رہا ہے۔ اس کی کسی بات پر اعتراض ہیں تو بتائیں۔ انسانوں کے فہم کو خدا کی طرف منسوب کرکے خدا کا انکار کرنا نامعقولیت کے سوا کچھ اور نہیں۔
یہاں قارئین کے لیے قرآن کی اس آیت کی وضاحت ضروری ہے جہاں سے لوگ عورت کی آدھی گواہی نکالتے ہیں ۔حقیقت یہ ہے کہ وہاں عورت کی آدھی گواہی کا کوئی تصور نہیں دیا گیا۔یہ سورہ بقرہ کی آیت 282 ہے جس میں یہ ہدایت دی گئی ہے کہ لین دین کے کسی معاملے میں گواہ ضرور مقرر کرو اور یہ گواہ دومرد ہونے چاہییں۔ اللہ تعالیٰ کا صاف مدعا یہ ہے جب گواہ مقرر کرنا تمھارے اختیار میں ہو تو کسی عورت کو گواہ بناؤ ہی نہیں۔ اس کی کی وجہ یہ ہے کہ اس طرح کے معاملات بارہا عدالتوں میں چلے جاتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نہیں چاہتے کہ عورتیں عدالتوں میں جج اور وکیلوں کی جرح کا سامنا کریں۔اس لیے ان کا ابتدائی حکم تو یہ بیان ہوا ہے کہ کوئی عورت بھی گواہ نہیں بننی چاہیے۔ لیکن بعض حالات میں یہ ممکن نہیں ہوتا تو ایسے میں اگر دو مرد نہ مل سکیں تو پھر مجبوری میں ایک مرد کے ساتھ دو عورتیں گواہ بنالی جائیں کہ ایک عورت عدالت کے ماحول اور تیز و تلخ سوالات سے گھبرا کر بات بھولنے لگے تو دوسری اس کی مدد کردے۔ اس پہلو سے جب دیکھیں گے تو یہاں آدھی پوری گواہی کا کوئی مسئلہ زیر بحث ہے ہی نہیں۔بات یہ زیر بحث ہے کہ دستاویز لکھتے وقت گواہ ضرور بنایا کرو۔ لیکن اس میں عورتیں گواہ نہ بنائی جائیں اور مجبوری ہو تو ایک کی جگہ دو بنائی جائیں۔ یہ عورت کی گواہی کو آدھا کرنے کا عمل نہیں بلکہ ان کے تحفظ کا ایک عمل ہے۔اس پر کسی معقول انسان کو کیا اعتراض ہوسکتا ہے؟
یہاں یہ بھی واضح رہے کہ یہ ایک سماجی ہدایت ہے۔ عدالت اور حکمرانوں کو گواہی کی قبولیت کا کوئی ضابطہ نہیں دیا گیا۔ کبھی کسی شہری نے اس ہدایت کی پابندی نہیں کی اور معاملہ عدالت میں چلا گیا تو جج اس بنیاد پرفیصلہ کرنے کا پابند نہیں کہ کون گواہ تھا اور کون نہیں۔نہ وہ اس بنیاد پر کیس سننے سے انکار کرسکتا ہے کہ قرآن کی بات کی پابندی نہیں کی گئی۔ اللہ تعالیٰ نے حکمرانوں اور عدالتوں کو ایسے کسی ضابطے کا پابند نہیں کیا ہے۔ اس کو ایک مثال سے یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ قرآن نے عورتوں کو کچھ آداب سکھائے ہیں جن کا اہتمام اجنبی مردوں کی موجودگی میں کرنا چاہیے۔ اگر کوئی عورت یہ اہتمام نہ کرے اور اس کے ساتھ زنا بالجبریا دست درازی کردی جائے تو عدالت اس بنیاد پر کیس خارج نہیں کرسکتی کہ خاتون نے قرآنی احکام کی پابندی نہیں کررکھی تھی۔اسے کیس کو اس کے میرٹ پر سننا ہوگا۔ یہ بات اگر واضح ہے تو پھر آدھی گواہی والا اعتراض کم از کم اس کتاب پر تو وارد نہیں ہوتا جو اب آسمان کے نیچے خدا کا واحد مستند اور محفوظ کلام ہے۔
اس مثال سے یہ بات واضح ہے کہ مصنف نے خدا کے احکام اور ا س کے کلام کو پوری طرح سمجھے بغیر تشکیک کی راہ اختیار کرلی ہے۔ سنی سنائی باتوں پر تشکیک و انکارِ خدا جیسی آخری حد پر چلے جانا غیر سنجیدگی اور سطحی انداز فکر کی علامت ہے۔ یہ وہ دو امراض ہیں جو کسی کو لاحق ہوجائیں تو پھر کوئی علمی گفتگو کرنا ممکن نہیں رہتا۔
آخری گزارش یہ ہے کہ ہم جس کائنات میں جی رہے ہیں وہ اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے کہ بغیر خدا کے اس کی کوئی توجیہ کی جاسکے۔ جو لوگ بے چارے ارتقا سے یہ خدمت لے کر خود کو بری الذمہ سمجھ لیتے ہیں ان کی خدمت میں یہی عرض کیا جاسکتا ہے کہ آپ کی ‘‘ملائیت’’ کہیں زیادہ نامعقول ہے۔ اس نامعقولیت کے بجائے سچائی کی تلاش کا راستہ اختیار کیجیے۔ خدا کی جنت اپنے تعصب سے اوپر اٹھ کر سچائی کو قبول کرنے کا بدلہ ہے۔ خدا نے ایسے ہی قیمتی لوگوں کو ڈھونڈنے کےلیے دنیا کا یہ امتحان برپاکیاہے اور امتحان ہی کی غرض سے خود کو پردہ غیب میں مستور کردیا ہے۔ اب جس کا دل چاہے وہ اپنے تعصبات سے چمٹا رہے اور جس کا دل چاہے سچائی کا راستہ اختیار کرلے۔ وہ وقت بہت دور نہیں جب خدا غیب کا پردہ اٹھا کر سارے معاملات کا فیصلہ خود ہی کردے گا۔ وہ دن ان لوگوں کے لیے بہت رسواکن ہوگا جنھوں نے اپنے شرفِ انسانی یعنی اپنی عقل کو اپنے تعصبات کی نذر کر دیا۔
والسلام
بندہ عاجز
ابویحیی