وہ آگ جس نے جلا دیا ۔ ابویحییٰ
کچھ عرصہ قبل کراچی کے علاقے، گلشنِ اقبال میں ایک اندوہناک سانحہ پیش آیا۔ یہاں واقع فائیو اسٹار اپارٹمنٹ کے ایک فلیٹ کے مکین، اے سی کی ٹھنڈی ہوا میں سونے کے لیے لیٹے۔ رات گئے شارٹ سرکٹ ہوا اور پورے گھر میں آگ پھیل گئی۔ ان لوگوں نے گھر سے نکلنے کی سرتوڑ کوشش کی، مگر آگ کی تپش نے باہر نکلنے کی ہر کوشش ناکام بنا دی۔ ان کی چیخیں سن کر اہل محلہ بھی مدد کو آئے، مگر چوروں کو روکنے کے لیے لگائی گئی لوہے کی جالیوں نے ان کی راہیں بھی مسدود کر دیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے آگ کے شعلوں نے اس گھر میں موجود چھوٹے بڑے تمام آٹھ افراد کو نگل لیا۔
اس واقعہ پر نہ صرف اس علاقے، بلکہ شہر بھر میں کہرام مچ گیا۔ ہر آنکھ اس دردناک واقعے پر اشک بار تھی۔ اخبارات اور میڈیا مختلف اداروں کو اس سانحے کا ذمے دار ٹھہرا رہے تھے۔ جبکہ یہ ادارے روایت کے مطابق حادثے کی ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈالنے میں مصروف تھے۔ ایک ہفتہ کی تحقیقات کے بعد معلوم ہوا کہ آگ لگنے کا بنیادی سبب یہ تھا کہ فلیٹ کے مکینوں نے بجلی چوری کرکے دو اے سی لگا رکھے تھے۔ لوڈ زیادہ ہونے کی بنا پر شارٹ سرکٹ ہوا، جس سے لگنے والی آگ نے پورے فلیٹ کو اپنے نرغے میں لے لیا۔ یوں ٹھنڈی ہوا میں سونے والے تھوڑی ہی دیر میں گرم شعلوں کا لقمہ بن گئے۔
بجلی کی چوری کا یہ واقعہ جو ایک سنگین حادثہ کا سبب بنا، اپنی نوعیت کا تنہا واقعہ نہیں بلکہ ہمارے ہاں بجلی کی چوری ایک معمول بن چکی ہے۔ چوری کا یہ معاملہ اتنا بے ضرر تصور کیا جاتا ہے کہ لوگ بہت اطمینان سے ایک دوسرے کو نہ صرف بجلی چوری کی تلقین کرتے ہیں بلکہ اس مقصد کے لیے نت نئے طریقے، کارِ ثواب سمجھ کر بتاتے ہیں۔
چوری اور بدعنوانی کا عمل ہر دور اور ہر معاشرے میں ایک برا عمل سمجھا گیا ہے۔ مگر ہمارے ہاں اس کی برائی دلوں سے مٹتی جارہی ہے۔ اس کا سبب حکمرانوں کی بدعنوانی اور کرپشن کا وہ تذکرہ ہے جو ایک عام آدمی کو اصلاح سے مایوس کر دیتا ہے۔ وہ خیال کرتا ہے کہ جب سب لوگ لوٹ مار کر رہے ہیں تو کیوں نہ وہ بھی اپنا حصہ وصول کرے۔
تاہم یہ رویہ دینی اور اخلاقی اعتبار سے بالکل غلط ہے۔ یہ طریقہ اصلاح کا نہیں بلکہ فساد کا طریقہ ہے۔ ایک غلط عمل دوسرے غلط عمل کا جواز کبھی نہیں بن سکتا۔ حکمرانوں کا ظلم اور ان کی بدعنوانی ہمارے لیے کسی چوری کا جواز مہیا نہیں کرسکتی۔ اگر اس سوچ کو درست مان لیا جائے تو پوری زمین ظلم و فساد سے بھر جائے گی۔ اسی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکمرانوں کے تمام تر ظلم اور خرابیوں کے باوجود، ان کی اطاعت کو لازمی قرار دیا ہے۔ اس مضمون کی بے گنتی احادیث کتابوں میں آئی ہیں۔ ہم مثال کے طور پر صرف ایک حدیث نقل کر رہے ہیں۔ فرمایا:
تم پر لازم ہے کہ اپنے حکمرانوں کے ساتھ اطاعت کا رویہ اختیار کرو چاہے تم تنگی میں ہو یا آسانی میں اور چاہے رضا و رغبت کے ساتھ ہو یا بے دلی کے ساتھ اور اس کے باوجود کہ تمہارا حق تمھیں نہ پہنچے،(مسلم،رقم1836)۔
بظاہر یہ حکم ہمیں قابل عمل نہیں لگتا اور اس کے بجائے ہم ان لوگوں کی باتوں کو زیادہ درست سمجھتے ہیں جو انسان میں نفرت، غصے اور انتقام کا ذہن پیدا کرتی ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کو چھوڑ کر جب ہم ان لوگوں کے پیچھے چلتے ہیں تو حکمرانوں کا محدود ظلم اور بدعنوانی نچلے طبقات میں سرائیت کر جاتی ہے اور پورا معاشرہ فساد سے بھر جاتا ہے۔ اس سوچ اور عمل سے صرف دنیا کے معاملات خراب نہیں ہوتے بلکہ آخرت میں بھی کسی شخص کے لیے برائی کا یہ عذر قابل قبول نہ ہوگا کہ اس کے حکمران برے اور ظالم تھے۔
ضروری ہے کہ لوگوں کو بتایا جائے کہ چوری کے جس عمل پر ہاتھ کاٹنے کی سزا اس دنیا میں مقرر کی گئی ہے، وہ بہت بڑا جرم ہے۔ دنیا میں چوری کی بجلی سے لگنے والی جو آگ آٹھ افراد کو جلا کر خاکستر کر گئی وہ آخرت میں ایک ایسی آگ میں بدلنے والی ہے، جس کے شعلے کبھی نہیں بجھیں گے۔ اس دن انسان کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہوگی کہ وہ اپنے آپ کو جہنم کی اس آگ سے بچا لے۔ چاہے اسے اس کے لیے اس دنیا میں مہنگی بجلی خریدنی پڑے۔ چاہے اسے بغیر اے سی کے سونا پڑے۔