ولن اور ہیرو ۔ ابویحییٰ
آج کل سیاسی گرما گرمی اور بحث و مباحثہ اپنے عروج پر ہے۔ ہر جماعت کے حمایتی دوسری جماعت کے لیڈروں کی شدید نفرت میں مبتلا نظر آتے ہیں۔ میں جب سوچتا ہوں کہ اس نفرت کی اصل وجہ کیا ہے تو اس کا ایک ہی جواب سامنے آتا ہے۔ یعنی وہ منفی سوچ جس کے تحت ہم ہمیشہ کسی نہ کسی ولن کی تلاش میں رہتے ہیں۔ ایسا ولن جس کے سر اپنے مسائل کی ساری ذمہ داری تھوپ کر ہم مزے سے اپنے دائرے میں تمام خرابیوں اور برائیوں کا ارتکاب کرتے رہیں۔
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے مسائل کی جڑ یہ ولن بنائے گئے لیڈر نہیں بلکہ ہم خود ہیں۔ ہمارے بیشتر مسائل جن کا سامنا ہمیں روز ہوتا ہے وہ ہمارے جیسے عام لوگوں ہی نے پیدا کر رکھے ہیں۔ ہم اپنی ذمہ داریوں اور فرائض سے بھاگتے ہیں۔ عدل، احسان، انفاق، ہمدردی اور خدمت کو اپنانے کے بجائے ہم خودغرضی، مفاد پرستی، خودپسندی، بے اصولی اور ناانصافی کی زندگی جیتے ہیں۔ حتیٰ کہ وہ کرپشن جس کا شور بہت ہے، اس میں بھی بیشتر حصہ عوامی کرپشن کا ہوتا ہے جس کا ارتکاب سرکاری ملازم، تاجر اور دیگر عوامی طبقات کرتے ہیں۔
اس منفی سوچ کے بجائے معاشرے میں اگر مثبت سوچ پھیل جائے تو لوگ ولن کی تلاش کے بجائے خود ہیرو بننے کی کوشش کریں گے۔ دوسروں پر انگلیاں اٹھا کر، اور ان کے خلاف جھوٹی سچی داستانیں پھیلانے کے بجائے اپنے دائرے میں اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کو اپنا طریقہ بنائیں گے۔ صبر، حلم، درگزر، خدمت، ایثار اور احسان کی روشنی سے اپنے اردگرد پھیلے اندھیرے کو دور کرنے کی کوشش کریں گے۔
حقیقت یہ ہے کہ ہمارے معاشرے کو کسی ولن کی نہیں ایک ہیرو کی ضرورت ہے۔ یہ ہیرو ہم میں سے ہر شخص بن سکتا ہے۔ مگر بدقسمتی سے کوئی شخص یہ کرنا نہیں چاہتا۔ کیونکہ ولن کو گالی دینا آسان کام ہے اور اپنے دائرے میں ہیرو بننا بہت مشکل کام ہے۔