زنبور کا دور ۔ ابویحییٰ
حکیم لقمان کے متعلق ایک لطیفہ مشہور ہے۔ انھیں موت کے علاج کی تلاش تھی۔ اس مقصد کے لیے برسہا برس تک وہ ایک ٹوٹکا کرتے رہے جس میں رات کے وقت جنگل میں جاکر خاص قسم کی لکڑیاں جلانی ہوتی تھیں۔ 23 برس بعد جاکر وہ وقت آیا کہ جب ایک خاص لکڑی جلانے سےعلاج و معالجے پر مکمل دسترس رکھنے والا وہ جن نمودار ہوا جسے موت کا علاج معلوم تھا۔ مگر اس روز حکیم صاحب کی ڈاڑھ میں درد تھا۔ یہ درد اتنا زیادہ تھا کہ جس لمحے وہ جن نکلا بے اختیار وہ اس سے پوچھ بیٹھے کہ ڈاڑھ کے درد کا کیا علاج ہے؟ اس نے جواب دیا ”زنبور“ (کیل کھینچ کر باہر نکالنے والا آلہ)۔ یہ کہہ کر وہ آگ میں جل کر ہمیشہ کے لیے مر گیا۔
یہ لطیفہ ڈاڑھ کے درد کی شدت کو بیان کرنے کے لیے حکما اکثر سنایا کرتے ہیں۔ جدید سائنس یہ بتاتی ہے کہ انسان کے مضبوط دانتوں کے نیچے موجود اعصاب انتہائی حساس ہوتے ہیں۔ کسی بنا پر دانت کمزور ہوجائے یا ٹوٹ جائے اور یہ اعصاب متأثر ہوجائیں تو ان میں ہونے والا درد انسان کو کھانے، پینے اور سونے تک نہیں دیتا۔ درد کی ٹیسیں اتنی شدید ہوتی ہیں کہ کوئی دوسری تکلیف اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔
اس پس منظر میں یہ لطیفہ دانت کے درد کی شدت کو بہت خوبی سے بیان کرتا ہے۔ مگر اس کے ساتھ یہ ایک اور حقیقت کا بھی بیان ہے جس کی طرف بالعموم لوگوں کی توجہ نہیں جاتی۔ وہ یہ کہ زمانۂ قدیم میں علاج معالجے کی سہولیات کتنی کم تھیں۔ دانتوں کی تکلیف کا علاج اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ زنبور کی مدد سے دانت کو کھینچ کر باہر نکال دیا جائے۔ یہ اپنی ذات میں ایک انتہائی تکلیف دہ عمل تھا جس کا تصور بھی لرزا دینے کے لیے کافی ہے۔
تاہم آج میڈیکل سائنس کی بے پناہ ترقی کے بعد دانتوں کی بدترین تکلیف کا بھی نہ صرف مکمل علاج موجود ہے، بلکہ اس علاج میں دانت کو مکمل طور پر سُن کر دیا جاتا ہے۔ جس کے بعد تکلیف شدہ دانت کی مرمت یا اسے نکال کر مصنوعی دانت لگوانے کا عمل نسبتاً بہت سہل ہوچکا ہے۔ سُن کر دینے والے انجیکشن اور درد ختم کرنے والی دواؤں نے علاج کی تکلیف کو بہت کم کر دیا ہے۔
دورِجدید میں جس شعبے میں انسانوں نے سب سے زیادہ ترقی کی ہے وہ میڈیکل سائنس کا شعبہ ہے۔ اسی بنا پر آج نہ صرف انسانوں کی اوسط عمر بڑھ گئی ہے بلکہ انسان جتنا عرصہ بھی زندہ رہتے ہیں، بہت زیادہ آرام اور صحت کے ساتھ بھرپور زندگی گزارتے ہیں۔ جبکہ زمانۂ قدیم کا انسان قدم قدم پر زخم کا شکار ہوتا اورعلاج کی سہولیات نہ ہونے کی بنا پر بے پناہ تکلیف جھیل کر اس دنیا سے رخصت ہوجاتا تھا۔ انسانی زندگی میں یہ آسانی بظاہر جدید سائنسی ترقی کی دین ہے، مگر درحقیقت یہ اللہ تعالیٰ کی ایک عنایت ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ ہیں جنھوں نے انسانی بدن میں وہ امکانات رکھے ہیں کہ وہ سُن کر دینے اور درد ختم کر دینے والی دواؤں کا اثر قبول کرتا ہے۔ انسانی جسم تعاون کرنا چھوڑ دے تو آج بھی کوئی علاج مؤثر نہیں ہوسکتا۔
اس پہلو سے اگر دیکھیے تو بلاشبہ آج کا انسان زمانۂ قدیم کے انسان سے کہیں زیادہ آسانی اورآسائش کے ساتھ زندہ ہے۔ مگر آج کا انسان ہی سب سے بڑھ کر اپنے اُس مہربان رب سے غافل ہے جو اسے تمام تر نعمتیں اور آسانیاں دے رہا ہے۔ زمانۂ قدیم کا انسان زنبور سے دانت نکلواتا تھا اور آج کا انسان سُن کر دینے والی دوا کے ساتھ دانت نکلواتا ہے۔ مگر پرانا انسان شکر کے بجائے شرک سے اللہ تعالیٰ کو جواب دیتا تھا تو آج کا انسان شکر کے بجائے غفلت اور معصیت سے خدا کو جواب دیتا ہے۔ اب ایسے میں اس کے سوا کیا چارہ ہے کہ اس انسان کو حرف غلط کی طرح صفحۂ ہستی سے مٹا کر ایک نئی دنیا بنائی جائے۔ جہاں رب کے شکر گزار بندے ہر طرح کی تکلیفوں سے محفوظ رہ کر حیات ابدی کا لطف اٹھائیں گے اور ناشکرے ہمیشہ ڈاڑھ کے درد اور زنبور کی چوٹ کا مزہ چکھیں گے۔