Top Lobster – جاوید چوہدری
لابسٹر (Lobster) سمندر میں ہوتے ہیں اور ہم انسان انھیں بڑی رغبت سے کھاتے ہیں ہم اور لابسٹر دونوں مکمل طور پر مختلف مخلوق ہیں لیکن اس کے باوجود ہم دونوں میں ایک چیز کامن ہے اور وہ ہے سیروٹونین (Serotonin) اور آکٹوپامن (Octopamin) کیمیکل کا کمبی نیشن۔ ہم انسانوں اور لابسٹر کی ترقی اور تنزلی کا سسٹم ایک ہی ہے، ہم دونوں ایک ہی طرح زندگی میں آگے بڑھتے اور کام یاب ہوتے ہیں، یہ سسٹم کیا ہے؟
ہم اسے ایک چھوٹی سی مثال سے سمجھ سکتے ہیں، آپ مختلف قسم کے لابسٹرز کو پکڑیں اور کسی ڈرم میں پھینک دیں۔ لابسٹر فوری طور پر ڈرم کے مختلف کونوں میں گردش کریں گے اور پھر چند لمحوں میں ڈرم کو اچھے اور برے دو حصوں میں تقسیم کر دیں گے اور پھر اچھی جگہ کے حصول کے لیے ایک دوسرے سے لڑنا شروع کر دیں گے، ان کی لڑائیاں چار مرحلوں میں ہوں گی، سب سے پہلے بڑے سائز کا لابسٹر اس اچھی جگہ پر قابض ہو جائے گا۔ ڈرم میں اگر اس وقت صرف ایک لابسٹربڑا اور باقی سائز میں چھوٹے ہوں گے تو چھوٹے بڑے کے حق کو تسلیم کرلیں گے اور یوں یہ معاملہ پہلی اسٹیج پر نبٹ جائے گا لیکن اگر ڈرم میں دو یا دو سے زائد برابر سائز کے لابسٹر ہوں گے تو پھر لڑائی کا دوسرا فیز شروع ہوجائے گا یہ آمنے سامنے کھڑے ہو کر ایک دوسرے کو ڈرانا اور دھمکانا شروع کر دیں گے۔
اس فیز میں اگر کوئی ایک لابسٹر جیت گیا اور دوسرے یا دوسروں نے سائز میں برابر ہونے کے باوجود اپنی ہار مان لی تو معاملہ یہاں بھی نبٹ جائے گا اور اس ڈرم میں سب اطمینان اور شانتی کے ساتھ زندگی گزارنے لگیں گے لیکن اگر ڈرانے اور دھمکانے کے بعد بھی جنگ کا فیصلہ نہیں ہوتا تو پھر جھڑپیں شروع ہوجائیں گے۔ بڑے سائز کے لابسٹر ایک دوسرے کے خلاف چھاپہ مار کارروائیوں کا آغاز کر دیں گے، یہ جنگ اگر یہاں سیٹل ہوگئی تو ٹھیک ورنہ بہترین جگہ کے حصول کی لڑائی چوتھے اور آخری فیز میں داخل ہوجائے گی۔ فریقین کے درمیان خوف ناک لڑائی ہوگی اور یہ جنگ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک کوئی ایک اپنی شکست نہیں مانتا یا کوئی ایک مر نہیں جاتا۔
اگر ایک فریق شکست مان لے تو ڈرم کی بہترین جگہ جیتنے والے کے قبضے میں چلی جائے گی اور یوں ڈرم میں امن ہوجائے گا اور جیتنے والا ڈرم کے تمام باسیوں کا سردار بن جائے گا اور ہارنے والے اس کی رعایا۔یہ آخری جنگ سیٹل ہونے کے بعد ڈرم کی فضا میں ایک نئی تبدیلی آجائے گی۔ کامیاب لابسٹر کا سائز مزید بڑا ہونے لگے گا اور یہ پہلے سے زیادہ خوب صورت ہوجائے گا اور تمام فی میل لابسٹرز اس کام یاب لابسٹر کی طرف متوجہ ہوجائیں گی اور وہ مضبوط خوبصورت اور سائز میں بڑے لابسٹر پیدا کریں گی۔ یہ کامیاب لابسٹر حیاتیات کی زبان میں ٹاپ لابسٹر کہلاتا ہے۔
ماہرین طویل مدت سے ریسرچ کر رہے تھے لابسٹر ایک دوسرے کے ساتھ لڑتے کیوں ہیں؟ جیتنے والے لابسٹر جیت کے بعد مزید بڑے اور خوب صورت کیوں ہوجاتے ہیں اور ہارنے والوں کا سائز کیوں چھوٹا رہ جاتا ہے اور یہ بدصورت اور بے ہمت کیوں ہوجاتے ہیں؟ طویل ریسرچ کے بعد پتا چلا کہ یہ دو کیمیکلز سیروٹونین اور آکٹوپامن کا کھیل ہے۔ لابسٹر جوں جوں جیتتا جاتا ہے اس کے جسم میں سیروٹونین کیمیکل کی مقدار بڑھتی اور آکٹوپامن کی کم ہوتی جاتی ہے اور یہ جب حریفوں کو مکمل طور پر شکست دے دیتا ہے تو سیروٹونین انتہائی بلندی اور آکٹوپامن انتہائی پستی کو چھو رہا ہوتا ہے اور اس کے بعد اس کے سائز اور کشش دونوں میں اضافہ ہوجاتا ہے۔
یہ ٹاپ لابسٹر بن جاتا ہے جب کہ باقی لابسٹر اس سے کمتر چھوٹے اور بدصورت ہونے لگتے ہیں اور یہ باقی زندگی اس سے لڑنے یا الجھنے کی غلطی نہیں کرتے۔ ہم انسانوں میں بھی ترقی اور تنزلی، بہادری اور بزدلی، اور خوب صورتی اور بدصورتی کا یہی کمبی نیشن ہوتا ہے ہم بھی انھی دونوں کیمیکلز کا کھیل ہیں۔ ہم جب زندگی میں کام یاب ہونے لگتے ہیں تو ہمارا سیروٹونین بھی بڑھنے لگتا ہے اور آکٹوپامن کی سطح نیچے آنے لگتی ہے ہم جوں جوں آگے بڑھتے جاتے ہیں ہمارا سیروٹونین اوپر جاتا جاتا ہے اور آکٹوپامن نیچے سے نیچے ہوتا جاتا ہے جب کہ ناکامی کی صورت میں سیروٹونین کا لیول پست ہوتا جاتا ہے اور آکٹوپامن کی سطح بڑھتی جاتی ہے۔ لہٰذا ناکام لوگ پست ہمتی، بے بسی، خود ترسی اور مظلومیت کے گڑھے میں گرتے چلے جاتے ہیں۔
سیلف ہیلپ کی دنیا میں طویل عرصے سے یہ بحث چل رہی تھی کہ امیر اور کامیاب آدمی کی دولت، صحت، عمر، انرجی، خوبصورتی اور چارم میں کیوں اضافہ ہوجاتا ہے اور غریب آدمی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کیوں مزید غریب، بیمار، بدصورت اور چارم لیس ہوتا جاتا ہے۔ لابسٹر پر ریسرچ کے نتائج سے پتہ چلا کہ اس کے ذمے داربھی سیروٹونین اور آکٹوپامن کیمیکلز ہیں، ان کی شرح غریب کو غریب تر اور امیر کو امیر تر بناتی چلی جاتی ہے۔ ہماری دولت اور کامیابی میں جوں ہی اضافہ ہوتا ہے ہماری شخصیت میں چارم بھی پیدا ہوجاتا ہے۔ ہم خوب صورت بھی ہوجاتے ہیں اور ہماری عمر بھی لمبی ہوجاتی ہے جب کہ غریب آدمی میں یہ سائیکل الٹا ہوتا ہے یہ جوں جوں ناکام ہوتا جاتا ہے اس کا آکٹوپامن لیول اوپر جاتا جاتا ہے اور یوں یہ غربت کے ساتھ ساتھ بیمار بھی ہوتا جاتا ہے اس کا قد اور وزن بھی کم ہوتا جاتا ہے اور یہ چارم لیس بھی ہوتا چلا جاتا ہے۔
یہ تھیوری جوں ہی آئی یہ گتھی بھی سلجھ گئی۔ کامیاب آدمی مزید کامیاب، امیر آدمی مزید امیر، اچھا اسپورٹس مین مزید اچھا اسپورٹس مین، مشہور لکھاری مزید مشہور لکھاری، کامیاب ایکٹر مزید کامیاب ایکٹر، کامیاب سیاست دان مزید کامیاب سیاست دان اور کامیاب سائنس دان مزید کامیاب سائنس دان کیسے بن جاتے ہیں؟ یہ بھی معلوم ہوگیا کہ ایڈی سن نے صرف 84 سال کی زندگی میں 1093 ایجادات کیس گئےے کر لی تھیں؟ دنیا کے تین ہزار بلینئیر کورونا کے زمانے میں مزید امیر کیسے ہوگئے؟ شاہ رخ خان اور سلمان خان اسٹار سے سپر اسٹار کیسے بن؟ اور برین ٹریسی کی تخلیق اور ریسرچ میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اضافہ کیسے ہوتا گیا اور دنیا کے کامیاب لوگ ستر اسی سال کی عمر میں نئی شادی کیوں اور کیسے کر لیتے ہیں اور ان پر نوجوان لڑکیاں کیوں مرنے لگتی ہیں اور ان لوگوں کی اوسط عمر نوے سال کیوں ہوتی ہے؟
یہ سب سیروٹونین کا کمال ہے۔ یہ کامیاب لوگوں کے جسم کو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید سے مزید ککس دیتا جاتا ہے اور یہ آگے سے آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں، یہ نکھرتے چلے جاتے ہیں۔ پاکستان میں سید بابر علی، عمران خان، طلعت حسین، مستنصر حسین تارڑ، عطاء الحق قاسمی اور پروفیسر احمد رفیق اس کی مثال ہیں یہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پہلے سے زیادہ جوان، متحرک، چارم فل، بزلہ سنج اور بہادر ہوتے جارہے ہیں۔ طلعت حسین صحافی ہیں، یہ پانچ سال سے مشکل دور سے بھی گزر رہے ہیں لیکن یہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پہلے سے زیادہ فٹ، خوبصورت اور بہادر ہوتے جا رہے ہیں، پروفیسر احمد رفیق نوے سال کو ٹچ کر رہے ہیں لیکن یہ آج بھی پندرہ پندرہ گھنٹے بولتے اور درجنوں لوگوں سے روزانہ ملتے ہیں اور ہم عمران خان اور میاں شہباز شریف کی سیاسی زندگی سے بھی لاکھ اختلاف کرسکتے ہیں لیکن یہ لوگ جسمانی لحاظ سے انتہائی فٹ بھی ہیں اور یہ ایک بار پھر اپنی سیاسی سپیس بھی پیدا کرتے چلے جا رہے ہیں۔ یہ کیوں اور کیسے ہورہا ہے؟ بس دو کیمیکلز۔
ہم اب آتے ہیں اس سوال کی طرف کیا عام انسان اپنا سیروٹونین لیول بڑھا اور آکٹوپامن کم کرسکتا ہے؟ سو فیصد کرسکتا ہے۔ ہمیں پہلے یہ بات ذہن نشین کرنی ہوگی یہ دونوں کیمیکلز کامیابی سے متعلق ہیں ہم جوں جوں کامیاب ہوتے جاتے ہیں، ہمارا سیرٹونین لیول زیادہ اور آکٹوپامن کم ہوتا جاتا ہے جب کہ ہار اور شکست کی شکل میں یہ سائیکل الٹ ہوجاتا ہے لہٰذا ہمیں جان بوجھ کر سوچ سمجھ کر اپنی کامیابیاں بڑھانا اور ناکامیاں کم کرنا ہوں گی مثلاً آپ چھوٹی چھوٹی کامیابیوں کی فہرست بنائیں، صبح جلدی اٹھنا، تیار ہو کر باہر نکلنا، کتابیں پڑھنا، واک اور ایکسرسائز، وقت کی پابندی، زیادہ سننا کم بولنا، شکر بڑھانا اور شکوہ کم کرنا، ناراض گاہک کو راضی کرنا، دوسروں کی بدتمیزی برداشت کر لینا، صدقہ اور خیرات بڑھانا، دائیں جانب چلنا، دوسروں کو راستہ دینا، خواتین کا احترام کرنا اور لوگوں سے خوش دلی سے ملنا؛یہ بظاہر چھوٹے چھوٹے کام ہیں لیکن یہ کامیابیاں ہیں۔
یہ آپ کا سیروٹونین لیول بڑھاتی ہیں اور یہ لیول بڑھتے بڑھتے آپ کو کامیاب لوگوں کی فہرست میں لے آتا ہے اور آپ جلد یا بدیر ٹاپ لابسٹر بن جاتے ہیں اور یوں آپ کے قد کاٹھ، خوبصورتی، عمر اور دولت میں اضافہ ہوجاتا ہے اور آپ اگر یہ عادات نہیں اپناتے تو پھر آپ کا آکٹوپامن لیول بڑھتا چلا جائے گا اور اس کے نتیجے میں آپ کا قد و قامت، رنگ، اعتماد، صحت اور تعلقات ہر چیز داؤ پر لگ جائے گی۔ لہٰذا میرا مشورہ ہے آپ روزانہ کم از کم دس بار چھوٹی چھوٹی کامیابیاں حاصل کرتے رہا کریں۔ ان شاء اللہ آپ کی زندگی بدل جائے گی۔
(بشکریہ: روزنامہ ایکسپریس)