رزق ربانی ۔ ابویحییٰ
’’میرے دوست نے مجھ سے کہا کہ آپ نماز پڑھ لیجیے میں انتظار کرلیتا ہوں۔‘‘، امتیاز صاحب مجھے اپنا ایک واقعہ سنا رہے تھے۔ یہ واقعہ کیا تھا، احسان و اعتراف کے اعلیٰ انسانی وصف کا ایسا بیان تھا جس کا ہم لوگ روز مرہ زندگی میں اکثر تجربہ کرتے رہتے ہیں۔ انھیں ایک دن قبل کسی جگہ جانا تھا۔ ان کے ایک دوست جو اسی طرف جا رہے تھے، انھوں نے پیشکش کی کہ وہ اُن کے ساتھ چلیں۔ چنانچہ امتیاز صاحب کے دوست انھیں ان کی منزل پر لے گئے۔ واپسی پر ظہر کا وقت ہوگیا تو امتیاز صاحب نے نماز پڑھنے کا ارادہ ظاہر کیا۔ مگر ان کے دوست نے تاخیر کا برا مانے بغیر وہ جملہ ادا کیا جو شروع میں بیان ہوا ہے۔ اس کے بعد کا احوال انھی کی زبانی سنیے۔
’’میں نماز پڑھنے لگا۔ اسی دوران میں مجھے خیال آیا کہ اس شخص نے میرے ساتھ بڑی مہربانی کی ہے۔ میرا دل اس کے لیے احسان مندی کے جذبات سے بھر گیا۔ مگر اگلے ہی لمحے مجھے احساس ہوا کہ میں ایک ایسے احسان پر شکر گزار ہوں جو نہ کیا جاتا تو مجھے زیادہ فرق نہیں پڑتا۔ لیکن جس ہستی کے سامنے میں اس وقت کھڑا ہوا ہوں، میری ساری زندگی اس کے عظیم ترین احسانوں کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے۔ میرا جسم، میری روح، میرا گھر، بیوی بچے، مال و اسباب، میرا ہر لمحہ، زندگی کا ہر پہلو، وجود کا ہر گوشہ اس کریم کے احسانات سے زیر بار ہے۔ اس کی ایک نعمت بھی چھن جائے تو میں برباد ہوجاؤں گا اور زندگی رنج و الم کی داستان بن جائے گی۔
میں تڑپ کر سجدے میں گر گیا۔ میں نے کہا کہ مالک! مجھ پر تیرے بے شمار احسان ہیں۔ مگر میں شکر گزاری کے بجائے معمولی محرومیوں اور وقتی مسائل کا رونا روتا رہتا ہوں۔ میرے مالک میں نے تیری بہت بڑی عنایات کو بہت تھوڑا سمجھا اور تیری معمولی آزمائش کوبہت بڑا بنا دیا۔ تو نے زندگی میں مجھے ہزاروں نعمتیں دیں، مگر میں ملے ہوئے ہزار کو بھول کر اور بے شمار کو چھوڑ کر ایک دو نہ ملی ہوئی چیزوں پر ناشکری کرتا رہا ہوں۔ میرے اس جرم عظیم کو معاف کر دے۔‘‘
میں نے امتیاز صاحب سے کہا:
’’آپ نے کل نماز کا قیام نہیں کیا بلکہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ میں قیام کیا تھا۔ آپ نے کل نماز میں سجدہ نہیں کیا تھا، رزق ربانی سے اپنا دامن بھرا تھا۔ آپ کی کل کی نماز، عام نماز نہیں تھی۔ یہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات تھی۔ آپ کی شکر گزاری کا سجدہ بظاہر زمین پر ہوا تھا۔ مگر درحقیقت یہ سجدہ خدا کے قدموں میں کیا گیا ہے۔ اس ملاقات پر خوشیاں منائیے۔ اس سجدے پر ناز کیجیے۔ یہ سجدہ نصیب والوں کو ملتا ہے۔ خاص کر آج کل کے اس دور میں جب ہر شخص ساری نعمتیں پا کر صرف ایک دو چیزوں کے نہ ملنے یا کم ملنے پر عمر بھر ناشکرا بنا رہتا ہے۔‘‘