تحقیق، سائنس اور ہم ۔ ابویحییٰ
دور جدید سائنسی ترقی کا دور ہے۔ یہ دور سائنسی طرز فکر (Scientific Thinking) اور سائنسی طرز تحقیق (Scientific Research Method) سے عبارت ہے۔ یہ سائنسی طرز تحقیق اس طرح غالب آچکا ہے کہ فزیکل سائنس ہی نہیں بلکہ سوشل سائنسز میں بھی اس طریقے کو چھوڑ کر پیش کی جانے والی کوئی بھی بات مستند تسلیم نہیں کی جاتی۔
اس طریقہ کار کے چھ اہم مراحل ہیں۔ پہلا مشاہدہ جس میں انسان کے علم میں کوئی بات آتی ہے۔ چاہے مشاہدے سے ہو یا کسی اور طریقے سے۔ اس کے بعد ایک مفروضہ قائم کیا جاتا ہے۔ یہ دوسرا مرحلہ ہے۔ تیسرے مرحلے پر اس حوالے سے تمام تر معلومات جمع کی جاتی ہیں۔ چوتھے مرحلے پر اس معلومات کا تجزیہ و تحلیل کیا جاتا ہے۔ پانچویں مرحلے پر ایک رائے اخذ کی جاتی ہے اور چھٹے اور آخری مرحلے پر نتائج فکر بیان کیے جاتے ہیں۔
یہ طریقہ کار بظاہر سائنسی طریقہ کار کہلاتا ہے مگر درحقیقت یہ تحقیق کا فطری طریقہ کار ہے۔ ہر وہ آدمی جس کو اللہ تعالیٰ نے عقل و شعور سے نوازا ہے وہ حقائق تک پہنچنے کے لیے یہی راستہ اختیار کرے گا۔ جو اس راستے کو چھوڑے گا وہ جھوٹ سنے گا اور اسی کو پھیلائے گا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بے مثال حکیمانہ اسلوب میں اس بات کو یوں بیان کیا ہے:
”کسی شخص کے جھوٹا ہونے کے لیے یہ کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات بیان کرنے لگے۔“
یہ روایت امام مسلم اپنے صحیح کے مقدمے میں لائے ہیں اور دیگر محدثین مثلاً امام البانی نے اس کو صحیح کہا ہے۔ (صحیح الجامع، حدیث رقم 4482)۔ اسی مفہوم کی ایک صحیح روایت یہ ہے کہ کسی شخص کے گنہگار ہونے کے لیے یہ کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات بیان کرنے لگے۔ (السلسلة الصحیحة:2025)۔
ان دونوں روایات میں جو حقیقت بیان کی گئی ہے اسے اگر مذکورہ بالا سائنٹفک ریسرچ میتھڈ کی روشنی میں دیکھا جائے تو اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ تحقیق کے چھ مراحل میں سے جو شخص بیچ کے دو مرحلے چھوڑ دے وہ جھوٹا ہے۔ یعنی سنی سنائی بات سے ایک مفروضہ قائم کرنا، اسی سنی سنائی پر اپنی رائے بنانا اور اطمینان کے ساتھ اسے بیان کرنے لگ جانا انسان کو جھوٹا اور گنہگار بنا دیتا ہے۔ اس لیے انسان اس حدیث کے مطابق زندگی گزارنا چاہے تو اس کے لیے ضروری ہوگا کہ وہ رائے قائم کرنے سے قبل متعلقہ موضوع پر پوری معلومات اکٹھی کرے اور پھر ہر ہر پہلو سے اس معلومات کا تجزیہ کرے۔ تب ہی کوئی رائے قائم کر کے اسے بیان کیا جاسکتا ہے۔
کوئی انسان اگر یہ نہیں کرسکتا تو قرآن و حدیث کی روشنی میں اس کے پاس صرف دو راستے ہیں۔ ایک وہ جسے متعدد صحیح روایات میں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر یقین رکھتا ہے اسے چاہیے کہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے۔(بخاری، رقم 1660)۔ اس روایت کی روشنی میں تو صاف نظر آئے گا کہ بلاتحقیق صرف سنی سنائی بات آگے بڑھانا چونکہ جھوٹ اور گناہ کا کام ہے اس لیے اسے کرنے سے بہتر ہے کہ آدمی خاموش رہے۔
دوسرا راستہ وہ ہے جو قرآن کریم میں واقعہ افک کے حوالے سے سورہ نور میں اس طرح بیان ہوا ہے کہ اہل ایمان کے سامنے کسی کے متعلق کوئی منفی بات سامنے آئے اور انسان کسی قسم کی تحقیق کر کے بات کرنے کی پوزیشن میں نہ ہو تو اسے حسن ظن سے کام لینا چاہیے اور اچھی بات ہی بیان کرنی چاہیے۔
یہ ہے قرآن و حدیث اور اب دیکھیے کہ آج ہم مسلمان کس جگہ پر کھڑے ہیں۔ ہماری پوری معاشرت، سیاست بلکہ دینداری میں بھی جو اصول اس وقت کار فرما ہے وہ یہ کہ جہاں اور جب کبھی کسی کے متعلق کوئی منفی بات سامنے آئے بلا تحقیق اسے آگے بڑھانا شروع کر دیا جائے۔ چاہے کسی کی کردار کشی ہو رہی ہو، کسی کی عزت پر حرف آرہا ہو، کسی کے ایمان پر حملہ ہو رہا ہو، ان سب سے بے نیاز ہو کر ہم بڑے مزے سے اس بات کو آگے پھیلانے لگتے ہیں۔ ہم تحقیق کرتے ہیں، نہ متعلقہ معلومات جمع کرتے ہیں، نہ حقائق کا جائزہ لیتے ہیں، یہ ناممکن ہو تو خاموش رہتے اور نہ حسن ظن سے کام لیتے ہیں۔ اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر ہمارا رویہ اکثر یہ ہوتا ہے کہ ہم لوگوں کے متعلق منفی چیزوں کی جستجو کرتے ہیں۔ چن چن کر لوگوں سے متعلق منفی معلومات اکٹھی کرتے ہیں اور اسی کو آگے بڑھاتے ہیں۔
انٹرنیٹ کی ایجاد کے بعد ہمارا یہ منفی رویہ اور نمایاں ہو کر سامنے آنے لگا ہے۔ انٹر نیٹ پر یہ چلن عام ہے کہ مختلف فورم اور سائٹس والے مقبولیت حاصل کرنے کے لیے کسی بھی مشہور شخص کے خلاف کوئی منفی بات ڈال دیتے ہیں۔ جس کے بعد ہزاروں لاکھوں لوگ اس منفی بات کو سننے، دیکھنے اور پڑھنے کے لیے ٹوٹ پڑتے ہیں۔ پھر فیس بک اور دوسرے ذرائع سے ایسی چیزوں کو خوب پھیلاتے ہیں۔
تاہم یہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ ہے کہ ایسے لوگ جھوٹے ہیں اور گنہگار ہیں۔ قیامت کے دن ایسے لوگ جھوٹے اور گناہگار ہی اٹھائے جائیں گے۔