تقدس کے اسیر ۔ احسان اللہ
ہمارے ہاں دین کے معاملے میں عموماََ عقل و شعور اور فہم و فراست کی بجائے لگے بندھے طور طریقوں پر سوچنے اور عمل کرنے ہی کو ترجیح دی جاتی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہم نے اپنی آنکھوں پر تقدس کی پٹی باندھ رکھی ہے۔ ہم اس پٹی کو ہٹا کر کھلی آنکھوں سے دیکھنے کو باعث گناہ سمجھتے ہیں۔ جہاں تقدس کا معاملہ ہو وہاں ہم بند آنکھوں سے بلاسوچے سمجھے عمل کرتے ہیں اور لکیر کے فقیر بن جاتے ہیں۔
ہم اپنے ماضی کے مذہبی علما کو مقدس سمجھتے ہیں۔ ان میں سے کسی نے کوئی بات کہہ دی ہے تو اس پر سوال اٹھانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ان علما کی اجتہادی بصیرت سے سبق حاصل کرنے کی بجائے ہم ان کے اجتہادات پر ہر زمان و مکان میں روبوٹک انداز میں من و عن عمل کرنا چاہتے ہیں۔ ان علمائے کرام میں سے کسی کی بات کے خلاف کوئی دلیل پیش کی جاے تو بس یہ کہ کر رد کر دی جاتی ہے کہ فلاں مقدس شخصیت نے دین کو نہیں سمجھا کیا؟ بھلا وہ کیسے غلط ہوسکتے ہیں؟
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہمارے ماضی کے علما ہمارے لئے باعث صد احترام ہیں۔ ضروری ہے کہ ان سے علمی استفادہ کیا جائے۔ مگر المیہ یہ ہے کہ اکابرین سے ہمارا تعلق مبنی بر علم نہیں بلکہ مبنی بر تقدس ہے۔ اگر ان کی بات کے خلاف کوئی علمی دلیل ہو تو بھی ہم بجائے اس پر غور کرنے کے اسے تقدس کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں۔ اگر ان سے ہمارا تعلق علمی ہوتا تو ہم ان کی اجتہادی بصیرت سے بہرہ ور ہوتے۔
شخصیات کی طرح عربی زبان بھی ہمارے لئے مقدس ہے۔ یقینًا دینی علم کے معاملے میں عربی زبان کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ دین کی تفہیم کے لیئے بطور علم عربی زبان ضرور سیکھنی چاہیے مگر شخصیات ہی کی طرح عربی کی طرف بھی ہمارا رجحان سیکھنے کا نہیں بلکہ محض تقدس کا ہے۔ مطلب سمجھیں یا نہ سمجھیں عربی میں لکھی دعائیں رٹا لگا کر یاد کرنے اور پڑھنے کو اپنا مقصد بنا لیتے ہیں۔ امام مسجد کی عربی میں مانگی ہوئی دعاؤں پر بغیر سمجھے آمین آمین کی رٹ لگاتے ہیں۔ حالانکہ دعا میں بندہ اپنے من کی مرادیں بارگاہ الٰہی میں پیش کرتا ہے مگر ہماری دعاؤں کا حال یہ ہوتا ہے کہ ہمیں یہ تک پتا نہیں ہوتا کہ ہم خدا کے حضور کیا مانگ رہے ہیں۔
صرف دعا ہی نہیں ہمارے خطبے بھی عربی میں ہوتے ہیں۔ خطبہ جمعہ جو وعظ و نصیحت کا بہترین ذریعہ ہے۔ جسے خاموشی سے بیٹھ کر سننا واجب قرار دیا گیا ہے، تقدیس عربی کی نظر ہو کر رہ گیا ہے۔ عربی میں دیے جانے والے اس خطبہ جمعہ کو بغیر سمجھے نہایت ادب، اور غور خوض سے سنا جاتا ہے۔ ہم اتنا بھی نہیں سوچتے کہ غور و خوض کی تاکید وہاں کی جاتی ہے جہاں صرف سننا نہیں بلکہ سمجھنا بھی ہو۔ اس مخصوص عربی خطبے سے پہلے ایک اور خطبہ بھی دیا جاتا ہے جو قومی یا مقامی زبانوں میں ہوتا ہے اسے عام طور پر عربی خطبے سے الگ شناخت دینے کے لیئے تقریر یا خطاب کا نام دیا جاتا ہے، سمجھ میں نہ آنے والے عربی خطبے کے بر عکس اس سمجھے جانے والے خطبے کو ادب و احترام اور خاموشی سے سننا واجب قرار نہیں دیا جاتا بلکہ یہ خطبہ اگر کسی وجہ سے دیا ہی نہ جائے تو بھی اس میں کوئی شرعی قبا حت محسوس نہیں کی جاتی ہے گویا اس خطبے کی خطبہ دینے والے کی نظر میں بھی کوئی اہمیت نہیں۔
اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں دین کو صحیح سمجھنے کی اور سمجھ کر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔