خدا ،عدل اور انسان ۔ ابویحییٰ
سوال اٹھانا اچھی بات ہے۔ یہ علم کا دروازہ ہے۔ اس عمل کی تحسین کی جانی چاہیے۔ مگر اس سے زیادہ بڑی خوبی یہ ہے کہ سوال اپنی ذہنی گرہ کو کھولنے کے لیے کیا جائے۔ یہی سوال مستحق جواب ہے اور ایسا سائل ہی راہ پاتا ہے۔ لیکن معاملہ یہ نہیں اور سوال اپنے نقطہ نظر کی تائید میں اٹھایا گیا ہو تو یہ سوال نہیں اعتراض برائے اعتراض ہے۔ ایسے سوال کا جواب تو دیا جاسکتا ہے۔ مگر یہ جواب کبھی اطمینان بخش نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ ایسے سائل کے پیش نظر اطمینان قلب کا حصول ہوتا ہی نہیں۔ لیکن جواب پھر بھی دیا جانا چاہیے۔ نجانے کس دل میں ہدایت کی خواہش کب جاگ جائے۔ ہم اپنے سردار کی پیروی میں اسی کے مکلف ہیں۔ وَأَمَّا السَّاءِلَ فَلَا تَنْہَرْ۔
خدا تمام مخلوق کا خالق ہے۔ کسی مخلوق کی مجال نہیں کہ وہ خدا کی مرضی کے بغیر پر بھی مار سکے۔ مگر قرآن بتاتا ہے کہ انسانوں نے اس خدائی قدرت سے روزِ ازل استثنا مانگا تھا۔ یہ استثنا اسے دے دیا گیا اور خدا نے اپنے اختیار کو بطور امانت انسانوں کو عطا کر دیا۔ یہی وہ اختیار ہے جسے استعمال کرکے آج انسان اس دھرتی کے خشک و تر پر حاکم ہے۔ انسانوں نے ہمیشہ اپنے اس اختیار کو مانا اور سمجھا ہے اور اسی حقیقت کی بنیاد پر اپنے اندر کے ان لوگوں کو سزا دی ہے جنھوں نے اس اختیار کا غلط استعمال کیا۔ اسی اصول پر عدالتیں بنتی ہیں۔ اسی اصول پر قاتل، ڈاکو، چوروں کو سزا دی جاتی ہے۔
سو اب جس کو خدا کی عدالت پر اعتراض ہے ،پہلے وہ انسانوں کی عدالتوں کو بند کروائے۔ سارے قاتلوں ، چوروں، رہزنوں اور معصوم بچیوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بناکر ان کی لاش کو کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دینے والے سفاک مجرموں کو عدالت سے اس اصول پر بری کروائے کہ یہ دماغ کے کچھ کیمیکل کی کارستانی تھی۔اس لیے اس مجرم کو نہیں پکڑو، اس کے اس خالق کو پکڑو جس نے اسے بنایا ہے۔ یہ منطق جب ساری دنیا کی عدالتیں مان لیں گی تو پھر خدا کی عدالت پر سوال کیا جاسکتا ہے۔رہا عالم کا پروردگار تو اطمینان رکھیے کہ وہ بندوں پر ذرہ برابر بھی ظلم کرنے والا نہیں۔کسی کے پاس قابل قبول عذر ہوا تو وہ اسے ضرور سنے گا۔
تاہم یہ حقیقت ہے کہ اختیار اور جواب دہی دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ انسان خدا کی عدالت میں اس لیے جواب دہ ہوگا کہ وہ صاحب اختیار بھی بنایا گیا ہے اور اس کے نتیجے کے طور پر صاحب اقتدار بھی ہے۔ خدا کی عدالت کی یہی وہ پیشی ہے جس سے خبردار کرنے انبیا آتے ہیں۔ ہم اپنی بات پھر دہرا دیں، انبیا خبردار کرنے آتے ہیں۔ ڈرانے نہیں آتے۔ ان کا خبردار کرنا اس شفیق ماں کی تنبیہ کی طرح ہوتا ہے جو بچے کو دھیان سے سڑک پار کرنے کی تلقین کرتی ہے، بری صحبت سے بچنے کا مشورہ دیتی ہے، غیر صحت مند رویوں سے روکتی ہے۔ جب تک دنیا میں خطرے باقی ہیں، لوگ اپنے پیاروں کو خبردار کرتے رہیں گے۔ یہ عمل اگر قابل اعتراض نہیں تو حضرات ابنیا آخرت کے جس خطرے سے خبردار کرتے ہیں، اس پر اعتراض کا کیا محل ہے؟
ہاں نبیوں کے مشن کا ایک اور جز بھی ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ جو لوگ سرکشی اور ظلم پر آمادہ ہوں وہ ان کو خدا کی پکڑ سے ڈراتے ہیں۔ اگر آپ نیک ہیں، اچھے ہیں، خیر کے کام کرتے ہیں تو اس ڈرانے کے مخاطب آپ ہیں نہ آپ کو اس پر اعتراض کرنا چاہیے۔ آپ کو تو انبیا خوش خبری سناتے ہیں۔ امید دلاتے ہیں کہ مجموعی طور پر آپ ٹھیک ہوں تو اللہ تعالیٰ چھوٹی موٹی غلطیاں ویسے ہی معاف کر دیں گے۔ یہ بھی بتاتے ہیں کہ بڑے گناہ بھی ہوجائیں تب بھی خد اکی رحمت؛ توبہ اور اصلاح کے دروازے موت سے پہلے ہمیشہ کھول کر رکھتی ہے۔ وہ اپنی نیکی کی دعوت کو اسی اصول پر پیش کرتے ہیں کہ تم اس کی تائید اپنے اندر سے پاؤ گے۔ ایسے میں انبیا پر یہ الزام لگانا کہ وہ خوف دلا کر لوگوں کو نیک بناتے ہیں، محتاط الفاظ میں بھی ان کی دعوت کے غلط فہم کے مترادف ہے۔
رہی یہ بات کہ دنیا کی سزا و جزا کی موجودگی میں آخرت کی سزا وجزا کی ضرورت نہیں تو یہ بھی ایک غلط فہمی ہے۔ اول تو دنیا میں ہر مجرم کو سزا نہیں ملتی نہ ہرنیک شخص کو اس کی خوبیوں کی جزا ملتی ہے۔ مل بھی جائے تو اکثر اوقات جرم کی شدت اور نیکی کی نوعیت ایسی ہوتی ہے کہ عدل کے تقاضے سزائے موت دے کر بھی پورے نہیں ہوسکتے۔ جس شخص کی گردن پر لاکھوں لوگوں کی موت کی ذمہ داری ہو، اس کے لیے ایک بار کی موت کیا سزا ہوئی؟جس شخص نے اپنی ایجادات سے ہزاروں لوگوں کی جان بچائی ہو، اسے اس دنیا میں کوئی کیا جزا دے سکتا ہے؟
اس لیے ضروری ہے کہ ایک دن آئے جب عدل کامل ہو۔ جب رائی کے دانے برابر عمل بھی سامنے لایا جائے۔ جب ہر مظلوم کا دل ٹھنڈا کیا جائے۔ ہر ظالم کو اس کے انجام تک پہنچایا جائے۔ ہر نیک کو اس نیکی کا ختم نہ ہونے والا بدلہ دیا جائے۔ یہ دن تو انسانی فطرت کی پکار ہے۔ اس کا انکار کرنا اپنی فطرت کے انکار کے مترادف ہے۔
آخری بات بھی ایک غلط فہمی ہے۔ خدا انسانوں سے اپنا تعارف ڈرانے والی ہستی کے طور پر نہیں کراتا۔ قرآن کی ہر سورت اس اللہ کے نام سے شروع ہوتی ہے جو رحمن و رحیم ہے۔ خدا کا یہی تعارف قرآن کا پہلا جملہ اس طرح کرواتا ہے کہ اللہ رب العالمین اپنی عطا و بخشش کی بنا پر ہر حمد کا مستحق ہے کیونکہ وہ رحمن اور رحیم ہے۔ یہ تعارف محبت پیدا کرتا ہے، خوف نہیں۔ ہاں یہ سچ ہے کہ خدا ڈراتا بھی ہے، مگرصرف مجرموں، ظالموں اور سرکشوں کو۔ آپ ایسے نہیں تو ڈرتے کیوں ہیں؟ شکر ادا کیجیے۔ اور اگر ہیں تو پھر خدا سے بے خوف رہنا کام نہیں آئے گا۔
خدا فلسفے کا ایک تصور نہیں۔ ایک زندہ ہستی ہے۔ اس نے جو اختیار ہمیں دیا ہے وہ بہت جلد اسے سلب کرنے والا ہے۔ خوش نصیب ہے جو اس اختیار سے خدا کی عنایتوں کو پالے۔ بہت بدنصیب ہے وہ جو اس اختیار کو پاکر خدا کو بھول جائے۔