سیاسی تعصب اور ہمارے حالات ۔ ابویحییٰ
تعصب اصلاً ایک فطری جذبہ ہے۔ یہ اپنے گروہ سے وابستگی کا نام ہے۔ چاہے یہ گروہ مذہبی ہو، تہذیبی ہو،لسانی ، قومی یا سیاسی ہو،اس سے فرق نہیں پڑتا۔ اسی کی بنیاد پر انسان سماجی مخلوق ہے اور اسی کی وجہ سے اجتماعی زندگی کا سارا حسن پیدا ہوتا ہے۔ مگر جب تعصب؛ وابستگی حق وباطل ، صحیح وغلط اور خیر وشرسے بالا تر ہوجائے اور اپنے گروہ اور لیڈر کی اندھی عقیدت میں بدل جائے تو یہ انسان کو آخر کار ایک اخلاقی مجرم بنادیتا ہے۔
اس حقیقت کو اگر سمجھنا ہے تو پاکستان کے موجودہ سیاسی حالات اس جرم میں مبتلا افراد کا بہترین تعارف کراتے ہیں۔ یہاں ہر گروہ کے لوگ اپنے لیڈروں کی عقیدت میں اندھے ہوچکے ہیں۔ اپنے لیڈروں کی ہر بے اصولی، ہر کرپشن، ہر اخلاقی کوتاہی، ہر موقع پرستی کو خوبصورت الفاظ میں چھپادیا جاتا ہے۔ اپنی ہر اخلاقی آلودگی کا جواب دوسروں کے اخلاقی گند کو نمایاں کرکے دیا جاتا ہے۔ حد یہ ہے کہ خواتین کی حرمت کو بھی بے تکلف پامال کیا جاتا ہے۔
اس طرح کی بے ہودہ حرکتوں کی توجیہ کے لیے لوگوں نے ہزار جواز گھڑ رکھے ہیں۔ ہر گروہ نے اپنے لیڈروں کی بے اصولی، موقع پرستی اور کرپشن کو چھپانے اور دوسروں کے اِنھی جرائم کو نمایاں کرنے کو اپنا ہنر بنارکھا ہے۔ یہ فن عام ایک زمانے میں سیاستدانوں اور سیاسی کارکنوں تک محدود تھا۔ مگر بدقسمتی سے اب سیاسی ٹالک شوز اور سیاسی کالم پڑھ کر عام لوگ بھی اپنی عقل اور اخلاقی حس کو ایک کونے میں رکھ کر اسی اندھے تعصب کا شکار ہوچکے ہیں۔
مگر یہ رویہ ایک اخلاقی جرم ہے جس کی سخت سزا ہے۔ اس کی سزا سے اگر بچنا ہے تو لوگوں کو ایک اصولی رویہ اختیار کرنا ہوگا۔ وہ یہ کہ کرپشن ایک جگہ جرم ہے تو دوسری اور تیسری جگہ بھی جرم ہونا چاہیے۔ اگر شخصیت پرستی ایک پارٹی میں قابل مذمت ہے تو دوسری میں بھی ہونی چاہیے۔ اگر ووٹوں کی خریدوفروخت ایک جگہ قابل نفرت عمل ہے تودوسری جگہ بھی ہونا چاہیے۔ دوسرے لیڈر کی بے اصولی اگر غلط رویہ ہے تو اپنے لیڈر کی بے اصولی کو سیاسی بصیرت کا نام دینا بھی غلط ہے۔
پاکستانی قوم پچھلے ستر برسوں سے اپنے لیڈروں کے ہاتھوں بیوقوف بن رہی ہے۔ اس بیوقوف بننے کا اصل سبب ان کا اپنے لیڈروں سے یہی اندھا عشق ہے جو ان کے اندر تعصب کو بھر دیتا ہے ۔ وہ اپنے لیڈر کی ہر غلط روش کی توجیہ کرتے ہیں۔ اس کے ہر غلط کام کا دفاع کرتے ہیں۔ اس کی ہر کرپشن، جھوٹ اور بے اصولی کے منکر ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ قدرت ان لیڈروں کی شکل ہی میں ان کو سزا دیتی ہے۔ ہمیں پچھلے ستر برسوں سے قدرت یہ سزا بدامنی، مہنگائی، بنیادی ضروریات کی عدم فراہمی، دہشت گردی، لوڈ شیڈنگ اور ان جیسے دیگر مسائل کی شکل میں دے رہی ہے۔
دکھ کی بات یہ ہے کہ پاکستانی قوم نے ابھی تک اس سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ صرف ہوا یہ ہے کہ پرانے تعصب سے نکل کر لوگ نئے تعصبات میں داخل ہورہے ہیں۔ پرانے لیڈروں کی جگہ لوگ نئے لیڈروں کی بے اصولی پر شادیانے بجارہے ہیں۔ پرانے لیڈروں کے بجائے لوگ نئے لیڈروں کی نفسیاتی غلامی میں جکڑے جاچکے ہیں۔ اس متعصبانہ روش کا نتیجہ یہی نکلے گا کہ سزا جاری رہے گی۔ حالات بدسے بدترہوتے چلے جائیں گے۔
اس صورتحال سے نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے۔ لوگ لیڈروں کے اندھے تعصب میں مبتلا ہونے کے بجائے اصولوں کی بنیاد پر رائے قائم کریں اور ہمیشہ حق کا ساتھ دیں۔ اپنا لیڈر بھی سیاسی خریدوفروخت کرے تو اس کی مذمت کریں ۔ اپنا لیڈر بھی بے اصولی کرے تو اس پر تنقید کریں۔ اپنی پارٹی کی کمزوریوں کو دوسروں کی آڑ میں نہ چھپائیں۔ اس کے بعد ہی ہمارے حالات بہتر ہونے کی کوئی امید کی جاسکتی ہے۔ ورنہ ہماری بربادی بڑھتی رہے گی۔