سورج اور چاند ۔ فرح رضوان
آپا نہ جانے کتنی دیر سے شہلا کی کاؤنسلنگ کی سر توڑ کوشش میں لگیں تھیں، لیکن اس کے سر پر تو جیسے ہر صورت ہی میاں سے علیحدگی کا بھوت سوار ہوچکا تھا۔ اسے یقین تھا کہ اس کی روز بروز بڑھتی ذہنی و جسمانی بیماریوں کی جڑ اس کا شوہر ہی ہے جس نے اس کا بھروسہ بھی توڑا اور گھریلو ذمہ داریوں سے بھی فرار کی راہ پکڑی ہوئی ہے۔
آپا حیران تھیں کہ اچانک سے شہلا کواپنے شوہر کی تمام خوبیاں کیسے بھول گئیں اور اب اس میں بس ہر طرح کی برائیاں ہی رہ گئی ہیں، اتنی دیر کی مغز ماری کے بعد دونوں طرف کچھ لمحے خاموشی چھائی رہی پھر شہلا کو کچھ یاد آیا تو تیزی سے پہلو بدلتے ہوئے بولی:
’’پتہ ہے آپا، میں صرف وکیل کے پاس سیدھی نہیں چلی گئی تھی اپنا طلاق کا کیس فائل کرنے، بلکہ ایک ماہر نفسیات کے پاس بھی ہو آئی کہ چلو میری کوئی خرابی ہے تو مجھے خاموشی سے پتہ چل جائے۔ حالانکہ فیس بہت تگڑی ہے اس کی۔
آپا کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ اپنی، حیرت کو چھپانے پر ساری قوت لگا دیں، یا صبر کے ساتھ شہلا کی حماقتوں کی داستان سننے پر۔ ابھی مخمصے میں ہی تھیں کہ شہلا، جو پانی پینے کے لیے ذرا دیر کو چپ ہوئی تھی، پھر بول پڑی ’’پتہ ہے آپا، میری زندگی کے بارے میں سن کر اس کی تو آنکھوں میں یہ موٹے موٹے آنسو آگئے تھے، اس نے مجھے کہا شہلا آپ بہت صابر ہیں، کوئی اور ہوتا تو نہ جانے کیا کر لیتا، آپ تو بہت بہادر ہیں۔ پھر اسی نے مجھے مشورہ دیا کہ تمھارے شوہر ارشد پہلے تو واقعی اچھے تھے، جیسے ایک تازہ سیب ہوتا ہے، جو ہر طرح سے فائدہ مند ہے، لیکن اب وہ ایک سڑا ہوا سیب ہے تو تم سڑے گلے سیب کا کیا کروگی؟ میں نے کہا اے بھئی! کچرے میں پھینک دوں گی اور کیا کروں گی ورنہ تو گھر میں بدبو الگ، اوپر سے مکھیاں آجائیں گی اور دس طرح کی بیماریاں لائیں گی۔‘‘
ہیں ۔ ۔ ۔ آپا کی حیرت دیکھنے والی تھی۔ ۔ ۔ شہلا چہک کر بولی:
’’آپا سچی، میرے جواب پر وہ بھی ایسے ہی مجھ سے امپریس ہوگئی تھی، ایک دم مجھ سے بولی، بریلینٹ، ویری امپریسیو، یو آر اے سمارٹ لیڈی شہلا۔ تو پھر پھینک دو یہ سڑا ہوا سیب انتظار کس بات کا کر رہی ہو؟ پھر اس نے اپنی ایک بہت ہی بھروسے کی وکیل کا کارڈ دیا مجھے۔ ۔ ۔ ‘‘
آپا افسوس سے سرد آہ بھر کر اسے دیکھتے ہوئے بولیں ’’شہلا میں تو اللہ تعالیٰ کے اس قانون کو جانتی ہوں کہ جو عورت بے سبب اپنے شوہر سے طلاق کا مطالبہ کرے، اور جو لوگ میاں بیوی کے درمیان جھگڑے کو ہوا دیں، دونوں سے وہ سخت خفا ہوتا ہے۔ ۔ ۔ دونوں ہی کا، دونوں جہانوں میں بھلا نہیں ہوسکتا۔ دیکھو میری بہن، ضرورت کے وقت اگر تم طلاق لو تو یہ تمہارا حق بھی ہے اور پھر اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ وہ تم کو وسعت بھی عطا فرمائیں گے۔ لیکن ابھی تو سوائے عام سی وقتی ناراضی اور محض کسی کھوکھلے شک کی بنا پر اس قدر بڑا فیصلہ نہیں لیا جا سکتا ناں۔
’’چلو مان لیا کہ ارشد ایک سڑا ہوا سیب ہے، تو ضروری تو نہیں کہ اسے اٹھا کر کوڑے میں ہی پھینک دیا جائے؟ اسی سیب کو کیاری میں بھی تو لگایا جاسکتا ہے نا، کچھ وقت ضرور لگے گا لیکن اسی ناکارہ سیب کو کارآمد بھی تو بنایا جاسکتا ہے نا! رب العالمین اسی کے مردہ بیج سے زندہ پودا بھی نکال دے گا اسے تناور درخت بھی بنا دے گا اور انگنت ثمرات بھی عطا فرمائے گا۔ بات بس یقین اور صبر کی ہے۔‘‘
شہلا ان کے اس فلسفہ زندگی سے کافی متاثر لگ رہی تھی، گردن ہلاتی ہوئی خود کلامی کے انداز میں بولی ’’یہ بات مجھے ڈاکٹر نے کیوں نہیں بتائی؟‘‘
ماں جی نے فورا جواب دیا’’ اس لیے کہ کسی کا گھر برباد ہو تو ہو اس کی وکیل دوست کا گھر تو آباد رہے آپس کے سانجھے کاروبار سے انکے گھر تو چلتے رہیں۔‘‘
شہلا کے چہرے پر بدلتے رنگوں سے صاف ظاہر تھا کہ بات اس کو اچھی طرح سمجھ آچکی ہے، وہ مدھم لہجے میں پھیکی سی ہنسی کے ساتھ بولی ’’اب کیا کرو؟‘‘
وہ بولیں: ’’دیکھو شہلا ہمارے بزرگ ایک کنبے کو پتا ہے کس بات سے تشبیہ دیتے ہیں؟ وہ کہتے ہیں کہ جوڑے تو آسمانوں پر بنتے ہیں اسی لیے ایک فیملی آسمان پر چاند، سورج اور ستاروں کی مانند ہوتی ہے، ستارے بچوں کی طرح بہت سارے چھوٹے چمکدار، چاند جو گھٹتا بڑھتا ہے ٹھنڈی روشنی پھیلاتا ہے، تاروں کے ساتھ رہتا ہے وہ عورت کی مانند ہے، جو اپنی طبعی کیفیات کے باعث رویوں میں کچھ اسی قسم کے اتار چڑھاؤ کا شکار ہوتی رہتی ہے، اس کی محبت بھی اکثر گھٹتی اور پھر مکمل آب و تاب سے چمک اٹھنے والی ہوتی ہے، اور گھر کے مرد کا کردار سورج کا سا۔ مانا کہ دونوں کا کردار اور ذمہ جدا جدا سا ہے لیکن عورت جو کہ چاند ہے، وہ بھلا سورج کی روشنی کے بنا کیسے روشن رہ سکے گی؟ اور سورج جس کی تپش سے سب گھبراتے ہیں اگر یہ تپش نہ ہو تو ہر سو بیماریاں جراثیم اندھیرا پھیل جائے، نہ پھل پک سکیں نہ فصلیں۔
شہلا خاموشی سے مسکرا کر’’ آپ بھی نا آپا۔ ۔ ۔ ‘‘کہہ کر رہ گئی۔
ماں جی بولیں: اگرصرف سورج کی تپش اور چبھن ہی پرنظر رکھو گی تو یہ کیسے جان پاؤ گی کہ نظروں کو خیرہ کر ڈالنے والی اس ایک روشنی میں دھنک کے تمام رنگ یکجا ہوئے رکھے ہیں۔ یہ رنگ دیکھنا چاہو تو تم کو ٹھنڈی پھوار بننا پڑے گا، میری بہن، تبھی تو تمھاری زندگی کے افق پر قوس قزاح اپنے حسین رنگ پھیلا سکے گی نا۔‘‘