Take a fresh look at your lifestyle.

رمضان تنہائی کی عبادت ہے ۔ ابویحییٰ

[حال ہی میں ابویحییٰ کے کیے ہوئے خلاصہ قرآن کی تقاریر کو جو کچھ برس قبل رمضان المبارک میں کی گئی تھیں، رسالے کی ویب سائٹ پر پیش کیا گیا۔ سامعین کی ایک بہت بڑی تعداد نے ان تقاریر کو سنا اور پسند کیا۔ اس خدمت کو سرانجام دینے کے بعد ابویحییٰ نے ایک مضمون لکھا تھا جو اس مناسبت سے قارئین کی دلچسپی کے لیے پیش خدمت ہے۔]

رمضان تنہائی کی عبادت ہے
اس دفعہ رمضان میں مجھے تراویح کے بعد قرآن کریم کے ترجمہ و مختصر تفسیر کی خدمت بھی سرانجام دینی پڑی۔ رمضان مبارک کے حوالے سے میرا اپنا رجحان یہ ہے کہ اس مہینے میں انسان کی توجہ تنہائی کی عبادت کی طرف زیادہ ہونی چاہیے۔ مگر اب ہمارے ہاں یہ مسئلہ ہوچکا ہے کہ سال بھر مساجد اور عبادت سے دور رہنے والے لوگ اسی مہینے میں ان کا اہتمام کرتے ہیں۔ ایسے میں قرآن کریم کی دعوت لوگوں تک پہنچانے کا ایک آسان ذریعہ بہرحال رمضان میں حاصل ہوجاتا ہے۔ یوں معاشرے میں نماز تراویح اور دیگر نمازو ں کے ساتھ درس قرآن و حدیث وغیرہ کا بکثرت اہتمام کیا جاتا ہے۔ مگر میں ذاتی طور پر رمضان المبارک میں پبلک خطابات سے ہمیشہ گریز کرتا ہوں۔ تاہم اس دفعہ بعض دوستوں کے زیر اہتمام ہونے والی تراویح میں اصل مقرر کی غیر موجودگی کی بنا پر ان دوستوں اور بزرگوں کے اصرار پر مجھے رمضان کریم میں اس بھاری ذمہ داری کو اٹھانا پڑا۔

تاہم میں ہمیشہ لوگوں اور خاص کر اہل علم کی توجہ اس طرف دلاتا ہوں کہ رمضان کا مہینہ تقریریں کرنے کا نہیں دراصل تنہائی میں اپنے رب سے لو لگانے کا مہینہ ہے۔ یہ لوگوں کو کچھ  دینے کا نہیں خود رب سے پانے کا مہینہ ہے۔ یہی سیرت طیبہ کا اصل درس ہے۔ اور اسی  لیے اعتکاف کی وہ عبادت اس ماہ مقدسہ میں مشروع کی گئی جو دنیا بھر سے کاٹ کر انسان کو خدا سے جوڑ دیتی ہے۔ چنانچہ جس شخص کے لیے ممکن ہو اُسے چاہیے کہ اس مہینے میں دنیا سے کٹ کر اپنے رب سے لو لگائے۔
 
مائیکروفون کا کرشمہ
رمضان سے تقریباً ایک ماہ قبل مجھے ایک مسئلہ پیش آگیا تھا جس نے پورے رمضان میرے لیے انتہائی تکلیف دہ صورتحال پیدا کیے رکھی۔ وہ یہ کہ میرے گلے اور بولنے کے نظام سے متعلق بعض عضلات میں کچھ تکلیف پیدا ہونے کی بنا پر میرے لیے گفتگو کرنا بہت مشکل ہوگیا۔ میں نے متعدد اسپیشلسٹ کو دکھایا۔ حتیٰ کہ Endoscopy تک کرانے کی نوبت پیش آگئی۔ مگر کوئی افاقہ نہیں ہوا۔ حالانکہ اس تکلیف سے نجات پانے کے لیے میں روزانہ تقریباً درجن بھر گولیاں کھاتا رہا تھا۔

خیر اسی حال میں رمضان مبارک شروع ہوگیا۔ میرے لیے تو بولنا ناممکن تھا، روزانہ ایک گھنٹے تقریر کا تو کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ میرا خیال یہی تھا کہ میں ایک آدھ دن تک کسی نہ کسی طرح تقریر کرلوں گا، مگر اس کے بعد لازماً مجھے رکنا پڑے گا۔ اس اندیشے کے باجود میں نے اللہ کا نام لے کر اس کام کا آغاز کیا اور اس کی عنایت سے یہ ممکن ہوگیا کہ پورے رمضان میں قرآن مجید کا ترجمہ و خلاصہ لوگوں کے سامنے میں بیان کرسکا۔ عالم اسباب میں، تاہم، اللہ تعالیٰ نے جس چیز کو اس ناممکن واقعے کو ظہور میں لانے کا ذریعہ بنایا وہ مائیکروفون سسٹم تھا۔ میرے زیر استعمال جو سسٹم تھا وہ انتہائی جدید اور معیاری تھا۔ جس کی بنا پر یہ ممکن ہوا کہ اسٹینڈ کے سہارے مائیک میرے منہ کے قریب رہتا اور میں بمشکل سرگوشی کے انداز میں گفتگو کرتا۔ یہ سرگوشی اتنی ہلکی ہوتی کہ میرے برابر بیٹھا ہوا شخص بھی اس کو نہیں سن سکتا تھا۔ مگر مائیکروفون سسٹم میری اس سرگوشی کو ایک بھرپور اور زوردار آواز بنا کر سامعین تک پہنچا دیتا۔ یوں لوگ میری بات اطمینان کے ساتھ سنتے رہے۔ گو اس طرح سرگوشی کرنے کے نتیجے میں میرے گلے کی تکلیف بہت بڑھ جاتی۔ بلکہ دوران تقریر ہر روز صورتحال یہ رہی کہ میری نوے فیصد طاقت اور توانائی آواز کو  گلے سے باہر نکالنے پر خرچ ہو رہی تھی اور بمشکل دس فیصد توانائی اور توجہ خلاصے، ترجمے، الفاظ و جملوں کی درست ادائیگی اور خیالات کے تسلسل پر مرکوز تھی۔ گرچہ اس فقیر پر یہ اللہ تعالیٰ  کا خصوصی کرم ہے کہ حاضرین کے فیڈ بیک کے مطابق یہ فقیر اللہ کے کلام کا اصل پیغام اپنی تمام تر لاچاری کے باجود بھی پہچانے میں کسی نہ کسی درجے میں کامیاب رہا۔ گو اس کی قیمت یہ دینی پڑی کہ اس تقریر کے علاوہ باقی وقت میں خاموش رہتا اور گھر والوں سے بھی اشارے کنائے میں بات کرتا۔ تاہم الحمدللہ جو ذمہ داری تفویض کی گئی تھی اسے میں پورا کرنے میں کامیاب ہوگیا۔

معجزوں کا دور
جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ مجھے یقین تھا کہ میں اس کام کو نہیں کرسکوں گا اور ابتدا ہی میں مجھے سامعین اور منتظمین سے معذرت کرنی پڑجائے گی۔ لیکن جب آخری عشرہ آیا اور مجھے احساس ہوا کہ اب یہ ممکن ہوچکا ہے تو میں نے پروردگار عالم کا بہت شکر ادا کیا۔ لیکن اس کے ساتھ ہی میرا دل انسانیت کے لیے بھی شکر گزاری کے احساس سے بھر گیا۔ کیونکہ ہمارے بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ہمیں یہ سکھایا ہے کہ جو شخص انسانوں کا شکر گزار نہیں وہ رب کا بھی شکر گزار نہیں ہوسکتا۔ میرے دل میں ان تمام لوگوں کے لیے احسان مندی کے جذبات پیدا ہوگئے جنھوں نے انسانیت کو نہ صرف مائیکروفون بلکہ اس جیسی دیگر تمام مفید چیزیں دیں۔

میں نے مزید غور کیا تو مجھ پر واضح ہوا کہ دور جدید معجزوں کا دور ہے۔ تمام شعبہ ہائے زندگی میں انسان نے اتنی ترقی کی ہے کہ زمانۂ قدیم کا انسان اس کا تصور کرنے سے بھی قاصر تھا۔ میں چند مثالوں سے اپنی بات واضح کرتا ہوں۔ اسلام آباد سے کراچی کا سفر تقریباً بارہ سو کلومیٹر کا سفر ہے جو بذیعہ ہوائی جہاز دو گھنٹے سے بھی کم وقت میں طے ہوتا ہے۔ یہ سفر زمانۂ قدیم کے انسان کے لیے ہفتوں بلکہ شاید مہینوں کا سفر تھا۔ اسی طرح امریکہ کینیڈا کا سات ہزار کلومیٹر کا سفر اب ایک دن سے بھی کم وقت لیتا ہے۔ سفر سے ہٹ کر ایک اور مثال لیجیے۔ آج کے دور میں فون، انٹرنیٹ اور ٹی وی وغیرہ کے ذریعے ہزاروں میل دور موجود لوگ ایک دوسرے کے ساتھ بالکل ایسے گفتگو کرسکتے ہیں جیسے آمنے سامنے بیٹھے ہوں۔ فاصلوں سے ہٹ کر ذرا علاج معالجے اور صحت کے مسئلے کو لیجیے۔ اس شعبے میں جو ترقی ہوگئی ہے اس کی بنا پر اب پیچیدہ ترین انسانی امراض کا علاج بھی دریافت ہوچکا ہے۔ بڑے بڑے آپریشن اب روزمرہ کی بات ہوچکے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ نہ صرف اوسط انسانی عمر میں بہت اضافہ ہوچکا ہے بلکہ انسانی آبادی چھ ارب سے اوپر ہوچکی ہے۔

دور جدید کی سہولیات اور آسانیوں کی تفصیل اگر بیان کرنے بیٹھیں تو ہزاروں صفحات بھی اس کے لیے کم ہیں۔ جس چیز کی طرف میں توجہ دلا رہا ہوں وہ یہ ہے کہ ان سہولیات کے نتیجے میں حیات انسانی بے حد سہل، آرام دہ، محفوظ اور پر لطف ہوچکی ہے اور زمانۂ قدیم میں جو کچھ بادشاہوں تک کو حاصل نہ ہوتا تھا وہ آج کے عام انسا نوں تک کی دسترس میں آچکا ہے۔

انسانیت، ہم اور خدا کا قانون
مگر اس غور فکر میں جو سب سے زیادہ تکلیف دہ چیز میرے سامنے آئی وہ یہ تھی کہ انسانیت کی اس ترقی میں آج کے مسلمانوں کا کوئی حصہ نہیں۔ آج کا مسلمان بے شعوری کے عالم میں ان میں سے ہر چیز سے بے تکلف استفادہ کر رہا ہے۔ مگر اس کی تخلیق میں اور انسانیت کو آسانی، بھلائی اور منفعت دینے کے اس عمل میں آج کے مسلمانوں کا سرے سے کوئی کردار نہیں۔ ہمارے اردگرد ان گنت جدید چیزیں موجود ہیں۔ کار، بس، بجلی، کمپیوٹر، ائیر کنڈیشن، موبائل، ٹی وی، ٹیلیفون اور ان کے علاوہ ان گنت گھریلو اور دفتری آلات۔ ان میں سے ہر ایک پر نگاہ ڈالیے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ان میں سے کسی بھی ایجاد کا سہرا آج کے مسلمان کے سر نہیں۔ میرے لیے یہ احساس انتہائی تکلیف دہ تھا کہ ہم نے انسانیت کو کچھ نہیں دیا۔ انسانیت کی موجودہ ترقی، بھلائی اور منفعت میں ہمارا کوئی حصہ نہیں۔

اس موقع پر مجھے نفع بخشی کے حوالے سے پروردگار عالم کا وہ قانون یاد آگیا جو قرآن کریم میں بیان ہوا ہے۔ سورۂ رعد میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
اسی نے آسمان سے مینہ برسایا پھر اس سے اپنے اپنے اندازے کے مطابق نالے بہ نکلے، پھر نالے پر پھولا ہوا جھاگ آگیا۔ اور جس چیز کو زیور یا کوئی اور سامان بنانے کے لیے آگ میں تپاتے ہیں اس میں بھی ایسا ہی جھاگ ہوتا ہے۔ اس طرح اللہ حق اور باطل کی مثال بیان فرماتا ہے۔ سو جھاگ تو سوکھ کر زائل ہوجاتا ہے اور(پانی) جو لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہے وہ زمین میں ٹھہرا رہتا ہے۔ اس طرح اللہ (صحیح اور غلط کی) مثالیں بیان فرماتا ہے (تاکہ تم سمجھو)۔ ﴿رعد١۳۔١۷﴾

اس آیت کے مطابق جھاگ جو ایک غیر نفع بخش چیز ہے وہ زمین پر باقی نہیں رہتا جبکہ پانی جو انسان کی ایک بنیادی ضرورت ہے وہ زمین میں ٹھہرا رہتا ہے۔ ٹھیک یہی معاملہ انسانوں کا بھی ہے۔ جو شخص، گروہ یا قوم اپنے اعمال سے خود کو انسانیت کے لیے نفع بخش ثابت کرتی ہے وہی قوم زمین میں اپنی جگہ بنا پاتی ہے۔ جبکہ غیر نفع بخش افراد اور قوم جھاگ کی مانند بے کار ہوتے ہیں۔ اور بے کار چیزوں کا وہی انجام ہوتا ہے جو جھاگ کا ہوتا ہے۔

پدرم سلطان بود
بدقسمتی سے آج مسلمانوں کو ان کے اکثر رہنما یا تو نفرت کی خوراک دے رہے ہیں یا پھر فخر کی۔ وہ انہیں یہ بتاتے ہیں کہ ساری دنیا ان کی دشمن ہے اور ان کی ترقی میں اصل رکاوٹ دوسروں کی سازشیں ہیں۔ وہ انہیں یہ نہیں بتاتے کہ آج کے مسلمان نفع بخشی کی صلاحیت سے محروم ہوچکے ہیں۔ انہوں نے انسانیت کو کچھ نہیں دیا۔ جب کچھ دیا نہیں تو خدا کے قانون کے مطابق مسلمان آج کسی ترقی اور کامیابی کے حقدار بھی نہیں ہیں۔

یہ لوگ نفرت کے زہریلے مواد کے علاوہ خوش گمانیوں کے محل تعمیر کرنے میں بھی اتنے ہی سرگرم ہیں۔ وہ مسلمانوں کو اسلاف کی عظمت کے قصے سناتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ ان ماضی کے قصوں سے حال کی تعمیر ممکن ہے۔ ہمارے نصاب میں بچوں کو مسلمانوں کے سائنسی کارنامے پڑھا کر یہ سمجھا جاتا ہے کہ اسی عمل سے مسلمان سائنس میں آگے نکل جائیں گے۔ کسی شخص کا یہ دعویٰ کہ میرا باپ بادشاہ تھا، اس کے حال کو تبدیل نہیں کرسکتا۔ اپنا حال صحیح انداز فکر سے بدلتا ہے۔ یہ حقائق کا اعتراف کرنے سے بدلتا ہے۔ یہ اپنے عمل کی سمت صحیح رخ پر ڈالنے سے بدلتا ہے۔ یہ جذباتی نعروں اور نفرت کی باتوں کے بجائے معقولیت اور امن و محبت کے راستے پر چلنے سے بدلتا ہے۔ پدرم سلطان بود سے اس دنیا میں کچھ نہیں ہوتا۔

دعوت کا راستہ
مسلمان آج جس حال میں ہیں اس کا سبب کسی اور کی خرابی نہیں مسلمان کی اپنی سوچ کی خرابی ہے۔ جو کچھ اچھائی اور بھلائی انہیں آج حاصل ہے وہ اللہ تعالیٰ کی عنایت اور مہربانی ہے۔ میں اپنی متعدد تحریروں میں تفصیل سے یہ بیان کرتا رہتا ہوں کہ آج مسلمانوں کو حاصل تمام بھلائیاں اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہیں جن کا مقصد صرف یہ ہے کہ مسلمان انسانیت کو حق کا پیغام پہنچا سکیں۔ مسلمان حق کے امین ہیں۔ ان کے پاس دنیا کا سب سے بڑا خزانہ قرآن کریم کی شکل میں موجود ہے۔ اس عظیم نعمت اور اس کے پیغام کو اگر وہ انسانیت تک پہنچانے کا تہیہ کرلیں تو نہ صرف خدا کی نظر میں ان کی قدر و قیمت بڑھ جائے گی بلکہ انسانیت بھی انہیں اپنے سر آنکھوں پر بٹھائے گی۔

ہدایت انسانیت کا حق ہے۔ خدا انسانیت کو اس کا یہ حق ضرور دے گا۔ وہ ہدایت کو اختیار کریں یا نہ کریں، یہ ان کا مسئلہ ہے۔ لیکن ہدایت کا ان تک پہنچنا مقدر ہے۔ اس کام میں کچھ وقت تو لگ سکتا ہے، مگر یہ کام رک نہیں سکتا۔ یہی وقت کا فیصلہ ہے۔

جہاں رہیے اللہ کے بندوں کے لیے باعثِ آزار نہیں، باعثِ رحمت بن کر رہیے۔ اگلی ملاقات تک، اللہ نگہبان۔
ابویحییٰ