سوشل میڈیا اور ہم ۔ فرح رضوان
جب بجلی نئی نئی آئی تھی تو بعض گھروں میں بارش کے دوران غلط یا غیر معیاری بجلی کے تاروں کی وجہ سے، برقی آلات کے علاوہ، گھر کی دیواروں میں، نلکوں اور پانی میں حتی کہ گیس کے چولہوں تک میں کرنٹ آجاتا تھا۔ لوگوں کو اپنے گھر میں ہی جائے پناہ نہ ملتی جس چیز کو ہاتھ لگاؤ بجلی کا جھٹکا۔ یہی حال ہم نے اس ٹیکنالوجی کا کیا ہوا ہے کہ سہولت کو لت بنا ڈالا، اب تو نہ گھنٹی بجتی ہے نہ باتیں ہوتی ہیں کہ کسی دوسرے کے کان کھڑے ہوں، خاموشی سے جس سے چاہا جو چاہا چٹ چیٹ کی چاٹ سے لطف اندوز ہوتے رہے۔
اس نئی کمیونیکیشن ٹیکنالوجی سے جس قدر فائدہ حاصل کیا جاسکتا ہے ہم دونوں جہانوں کا اس سے دگنا نقصان اٹھا رہے ہیں اور جس طرح زکام کسی کو بھی ہوجاتا ہے، یہ وباء بھی چھوت کے مرض کی طرح، لا دین افراد میں جتنی دکھائی دیتی ہے اس سے ’’دیندار‘‘ افراد بھی محفوظ نہیں اور عمر، جنس، شادی شدہ، ہونے نہ ہونے کی بھی کوئی قید نہیں اور جوان بچوں کے ہوتے ہوئے ان کے والدین کو ہوش نہیں کہ وہ لمحاتی جذباتی تسکین کے لیے کسی نامحرم سے دکھ سکھ بانٹنے کے نام پر کس دلدل میں دھنستے جا رہے ہیں۔
زندگی میں کوئی قاعدہ قانون ہی نہیں رہ گیا ہے جب مخلوط محفلیں اور دوستیاں ہوں گی تو کسی کو بھی کوئی بھی اچھا لگنا شروع ہوجائے تو کچھ عجب نہیں۔ سمارٹ فون ہاتھ میں لیے معاشرہ اتنا نڈر اور بیباک ہوا کہ دل میں خدا خوفی کی جگہ طفلی اور سفلی خواہشات ختم ہونے میں نہ آتی ہوں تو کیا کریں۔
بنیادی طور پر اس میں چار طرح کے لوگ شامل ہیں، ایک وہ جن کی ناک کے نیچے انہیں دھوکہ دیا جا رہا ہوتا ہے۔ دوسرے وہ جو اپنی دنیا میں مگن بنا کسی بری نیت کے فساد فی الارض کا گناہ سمیٹ رہے ہوتے ہیں۔ تیسرے وہ جو سمجھدار ہونے کے باوجود پھسل جاتے ہیں اور چوتھے وہ جو بظاہر دوسروں کو لیکن اصل میں خود کو دھوکہ دے رہے ہوتے ہیں، دوسروں پر اور اپنی جان پر ظلم کر کے خفیہ غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ملوث ہوتے ہیں۔
دھوکہ کھانے والے کیا کریں؟
وہی جو ہر برائی کے لیے حکم ہے کہ اسے جس حد تک ممکن ہو حکمت کے ساتھ زبان سے ہاتھ سے روکو ممکن نہ ہو تب دل میں برا جانو جو کہ آخری درجے کا عمل ہے۔
وہی جو ہیروئن کے عادی فرد کے ساتھ کیا جاسکتا ہے، سب سے پہلے حقیقت کو اس کی تمام تر تلخیوں کے ساتھ قبول کرنا۔ دوسرا تحمل، تدبر حکمت و ہمت کے ساتھ معاملہ کرنا، دعا، توکل، برداشت ،صبر اور عفو کا دامن نہ چھوڑنا کیونکہ بہت سے لوگ گناہوں سے واپسی کا راستہ صرف اس وجہ سے بھی ترک کر دیتے ہیں کہ دوسری طرف معافی کے بجائے عمر بھر کے طنز و طعنوں کے نشتر دکھائی دیتے ہیں۔
دوسری قسم کے غافل افراد سے ہوش کے ناخن لینے کی درخواست ہی کی جاسکتی ہے کہ اللہ کے بندو جب طوفانی جھکڑ چل رہے ہوں تو باہر اڑتے غبار اور کچرے کے لیے گھروں کے دروازے کھولے نہیں بند کیے جاتے ہیں سخت موسم سے نمٹنے کے لیے غذا ماحول دوا سبھی کا بندوبست ضروری ہے۔ ہم دوسرے کلچر کو من و عن نہیں اپنا سکتے۔ آپ کے دل میں بے شک ذرا بھی کھوٹ نہ ہو لیکن سوشل میڈیا پر تصاویرسے لے کر۔۔۔۔۔۔
ازواج کا کھلے عام اظہار محبت؟ کیا اس کی ہمیں اجازت ہے؟ جو دین آپ کی یہ تربیت کرتا ہے کہ غریب پڑوسی کو آپ کے گھر کے کھانوں کی خوشبو سے بھی اذیت نہ پہنچے آپ آئے دن دعوتوں کی تصاویر لگا کر انجانے میں کسی کے گھر فساد کا باعث بن رہے ہیں کہ بیوی کو شکوہ کہ میاں اس طرح نہ تو کماتا ہے نہ گھماتا ہے نہ محبت جتاتا ہے اور شوہر کے لیے تو مثل مشہور ہے کہ اسے اولاد اپنی اور بیوی دوسرے کی پسند آتی ہے۔ جس کے پیچھے یقیناً نفس اور شیطان ہی ہے لیکن اس آگ کو مزید ہوا دینا اصل میں کس کا ساتھ دینا ہوسکتا ہے؟
تیسری قسم کے لوگ وہ ہوتے ہیں جن کو اندر ہی اندر غم کھائے جاتا ہے کہ ان کی محنت یا صلاحیت کی کوئی قدر ہی نہیں کرتا خود پسندی کا شکار تعریف و توصیف کی طلب۔ یہ سیدھی سیدھی اقبال کی مکھی کی خوشامد پسند طبیعت اور مکڑے کے مکر کی داستان ہے۔ جس کا لب لباب یہ ہے کہ اپنی تعریف سننے کی خواہش میں کسی کے جھانسے میں آجانا۔
اور چوتھی قسم کے لوگوں کو کچھ نہیں کرنا سوائے اس کے کہ وہ ’’اللہ کو دھوکہ‘‘دینے والوں کا حال قرآن کے شروع میں، درمیان میں، آخر میں جہاں سے چاہیں پڑھ لیں کہ اللہ تعالیٰ کیسے ڈھیل دیتا ہے، کس قدر نفرت فرماتا ہے بظاہر مسلمان بن کے خفیہ طور پر دین کے مخالف کاموں کو رغبت کے ساتھ کرنے پر۔
یقیناً اللہ کریم ہے اور تواب بھی کہ سچی توبہ کرنے والوں کو معاف فرما دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے گھروں اور معاشرے کو ہر طرح کے شر سے بچائے۔ اولاد و ازواج کو آنکھوں کی ٹھنڈک بنائے۔ وقت رہتے سچی توبہ کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین