شاپنگ کلچر ۔ ابویحییٰ
تاریخ کے مختلف ادوار میں انسانوں کی زندگی کا مرکز مختلف چیزیں رہی ہیں۔ ایک دوروہ تھا جب انسان خارج میں موجود مخلوقات کو معبود کے مقام پر رکھتا اور انہی کی رضا و خوشنودی کو اپنی زندگی کا نصب العین بناتا تھا۔ یہ زیادہ تر زراعتی دور یا ایگریکلچرل ایج کا زمانہ تھا۔ اس دور میں رائج کلچر کو ہم معبود کلچر کہہ سکتے ہیں۔ پھر صنعتی دور یا انڈسٹریل ایج کا زمانہ آیا جب انسان ان سارے خداؤں سے فارغ ہوگیا۔ اس دور میں مخلوقات عبادت کا نہیں بلکہ تحقیق کا موضوع بن گئیں۔ یہ وہ دور تھا جس میں کائنات انسانی فکر و فہم کا مرکز نگاہ بن گئی۔ ایجادات اور تحقیقات نے دنیا بدل کر رکھ دی اور کل کائنات انسان کے لیے مسخر ہوگئی۔ چنانچہ اس کلچر کو ہم تسخیر کائنات کلچر کہہ سکتے ہیں۔
اکیسویں صدی میں ایک نیا دور شروع ہوچکا ہے۔ یہ انفارمیشن ایج ہے۔ اس دور میں ایجاد و اختراع کا دروازہ بند تو نہیں ہوا، لیکن اس کا رخ انسانی خواہشات کی تسکین کی طرف ہوچکا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ آج ہر انسان کی زندگی کا مقصد لذت کا حصول اور اپنے اردگرد مادی دنیا کی رونقوں کو جمع کر لینا ہے۔ چنانچہ سائنسدان، انجینیئر، صنعتکار اور تاجر ایسی اشیا بنانے اور ان کی تیاری میں لگے رہتے ہیں جو انسانی زندگی کو آسائش اور سہولت سے بھر دیں۔ بازار، دکانیں، شاپنگ سنٹر ان مادی اشیا سے بھرے ہوئے ہیں جو انسانوں کے لیے باعث کشش ہوتی ہیں۔ اخبارات، ریڈیو، ٹیلیوژن اور سینیما میں اشتہارات کا انبار لگا ہوا ہے تاکہ لوگ خریداری کی طرف مائل ہوجائیں۔
اس پس منظر میں ہم آج کے زمانے کو خریداری یا شاپنگ کلچر سے تعبیر کر سکتے ہیں۔ جس میں آج ہر انسان کی زندگی کا مقصد یہ ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ پیسہ کمائے اور زیادہ سے زیادہ چیزیں خریدے اور انہیں استعمال کرے۔ یہ گویا انسانی فکر کا آخری ارتقا ہے جب اس نے یہ حقیقت جان لی ہے کہ نہ صرف اس کے اندر لذت اندوزی کی بے پناہ صلاحیت ہے بلکہ اس کائنات میں بھی اس کی لذت کو تسکین بخشنے کی غیر معمولی استطاعت ہے۔ گرچہ انسان کی اس لذت اندوزی کو بے مزہ کرنے کے لیے غربت، بیماری، مصائب، محرومی، معذوری، بوریت، محدودیت اور سب سے بڑھ کر موت اس کے ساتھ لگی ہوئی ہے۔ یہ سب چیزیں انسان کی بنائی ہوئی ہر مادی جنت کو کسی بھی وقت اجاڑ سکتی ہیں۔
یہ صرف پروردگار عالم کی جنت ہے جہاں انسان ان تمام مسائل سے محفوظ رہ کر ختم نہ ہونے والی زندگی میں ہمیشہ خوشی و کامرانی کی زندگی جیے گا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ جنت بھی دراصل ایک خریداری کلچر کے نتیجے میں انسان کو ملتی ہے۔ یہ خریداری کلچر وہ ہے جس کا ذکر قرآ ن مجید میں (التوبہ 111:9) میں ہے۔ اس کلچر میں انسان اپنے وقت، اپنی صلاحیت، اپنے مال اور سب سے بڑھ کر اپنی جان کا بہترین مصرف یہ سمجھتا ہے کہ ان سے جنت خریدی جائے۔ اس مقصد کے لیے وہ نیکیوں کے سکے جمع کرتا ہے، بھلائیوں کی کرنسی سمیٹتا ہے، عبادت واطاعت کی انویسٹمنٹ میں اپنے جان اور مال کو کھپاتا ہے، انسانی خدمت کے میدان میں تگ و دو کرتا ہے، نصرت دین کی مدد اور رشتہ داروں کی مددد کے لیے خرچ کرتا ہے، کمزوروں اور ضعیفوں کی رعایت کرتا ہے۔
یہ کلچر بظاہر آج ایک غیر مقبول کلچر ہے۔ مگر وہ کلچر ہے جو انسانیت کا ابدی کلچر ہے۔ یہ کلچر قیامت کے فوراً بعد شروع ہوگا اور کبھی ختم نہیں ہوگا۔ اس ابدی کلچر میں جنت کے خریداروں کے لیے ختم نہ ہونے والی خوشیاں ہوں گی۔ بے حساب نعمت ہوگی۔ بے خوف زندگی ہوگی۔ بے انتہا لذت ہوگی۔ بے حد تسکین ہوگی۔ بے پناہ سرور ہوگا۔ بے اندازہ مسرت ہوگی۔ کاش شاپنگ کلچر کا انسان اس آنے والے کلچر کو جان لے۔