شیطان اور انسان ۔ ابویحییٰ
قرآن انسانیت کے لیے ہدایت کی کتاب ہے۔ اس کتاب میں جگہ جگہ اہم واقعات اور قصے بیان کر کے لوگوں کو مختلف چیزوں پر توجہ دلائی گئی ہے۔ قرآن مجید کے آغاز میں جو پہلا قصہ سورہ بقرہ میں انسانوں کو سنایا گیا ہے وہ حضرت آدم اور ابلیس کا قصہ ہے۔ اسی سے اس بات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے سامنے کس بات کو سب سے اہم سمجھ کر ان کے سامنے رکھا ہے۔ یہ قصہ قرآن مجید کی مزید چھ سورتوں اعراف، حجر، بنی اسرائیل، کہف، طہ اور سورہ ص میں بھی بیان کیا گیا ہے۔
قرآن مجید سے اس واقعے کی جو تفصیلات سامنے آتی ہیں ان کے مطابق اللہ تعالیٰ نے انسان کو زمین پر خلیفہ بنانے کا فیصلہ کیا۔ فرشتوں نے اس پر بعض سوالات اٹھائے، مگر ان کا جواب ملنے کے بعد اللہ کے حکم کے سامنے سربسجود ہوگئے۔ تاہم ابلیس نامی جن نے اللہ کا فیصلہ نہ مان کر آدم علیہ السلام کے سامنے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا۔
اس نے اپنے انکار کی یہ وجہ بیان کی کہ اللہ تعالیٰ نے خود اسے آگ سے اور حضرت آدم کو مٹی سے پیدا کیا ہے۔ چنانچہ وہ ایک برتر ہستی ہے اور اس وجہ سے اس کا سجدہ کرنا درست عمل نہیں تھا۔ اللہ تعالیٰ کے صریح حکم کے سامنے کسی بھونڈی منطق کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ حقیقت یہ تھی کہ اس نے اپنے تکبر کو خوبصورت الفاظ کا جامہ پہنانے کی کوشش کی تھی۔ مگر وہ یہ بھول گیا کہ جس ہستی نے اسے آگ سے پیدا کیا ہے اسی نے سجدے کا یہ حکم بھی دیا ہے۔ وہ ہستی کبھی کوئی غلط حکم نہیں دے سکتی۔ تاہم شیطان نے اپنی غلطی ماننے سے انکار کر دیا۔ اس کے بجائے اس نے اللہ سے اس بات کی مہلت مانگ لی کہ وہ انسان کو گمرہ کرسکے۔
قرآن مجید جگہ جگہ اس بات کو واضح کرتا ہے کہ شیطان اور اس کی ذریت یعنی اولاد کا مشن اب تاقیامت یہی ہے کہ وہ انسانیت کو گمراہ کریں۔ اس کا سب سے بنیادی کام یہی ہے کہ وہ انسانوں کے بارے میں یہ ثابت کرے کہ انسان ایک ناشکری مخلوق ہے اور جو مقام اسے دیا گیا تھا وہ اس مقام کا اہل نہ تھا۔ چنانچہ شیطان انسانوں کو اللہ کی نافرمانی پر اکساتا ہے۔ اس نافرمانی میں شرک سے لے کر بدعات اور انبیا و رسل کی مخالفت سے لے کر انسانوں میں فساد ڈلوانے اور فواحش پھیلانے تک کے سارے کام شامل ہیں۔
تاہم قرآن کریم سے یہ بھی واضح ہے کہ شیطان انسان پر کوئی قدرت نہیں رکھتا۔ وہ زبردستی کسی سے برائی نہیں کروا سکتا۔ اس کا طریقہ واردات یہ ہے کہ وہ انسانوں کے دلوں میں وسوسہ انگیزی کرتا ہے اور وہ برائی کو بھلائی کی شکل میں خوبصورت بنا کر پیش کرتا ہے۔ جو لوگ شیطان سے متنبہ ہوکر زندگی گزارتے ہیں وہ فوراً اپنا احتساب کرتے ہیں۔ وہ کبھی اپنے آپ کو کوئی غیر ضروی رعایت نہیں دیتے۔ وہ کبھی تکبر اور بڑائی کی نفسیات میں نہیں جیتے۔
ایسے لوگوں کو جب بھی کسی غلطی کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے، وہ جواب دینے، برا ماننے، تاویل کرنے، دوسروں پر الزام لگانے یا اپنی غلطی کسی اور پر ڈالنے کے بجائے فوراً اپنی اصلاح کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ وہ اللہ کے آگے گڑگڑاتے ہیں کہ وہ ان کی خطاؤں اور بھول چوک کو معاف کر دے۔ یہی لوگ آدم کی بہترین اولاد، زمین کا نمک اور جنت کے باسی ہیں۔
اس کے برعکس جو لوگ اپنی غلطی کو ماننے کے بجائے ضد، ہٹ دھرمی، اور الٹا سمجھانے والوں پر الزام تراشی پر آمادہ ہوجائیں وہ شیطان کے پھندے میں پھنس جاتے ہیں۔ زیادہ وقت نہیں گزرتا کہ ایسے لوگ خود شیطان کے مشن میں شریک ہوجاتے ہیں۔ وہ گمراہی پھیلاتے، فساد مچاتے اور برائی کے سفیر بن جاتے ہیں۔ یہ آدم کے نہیں ابلیس کے بندے اور اس کی اولاد ہیں۔ یہی لوگ زمین کے وہ کانٹے ہیں جو کل قیامت کے دن جہنم کا ایندھن بنائے جائیں گے۔