یہود اور قرآن مجید ۔ ابویحییٰ
قرآن مجید مسلمانوں کی مقدس کتاب ہے۔ قرآن مجید کا ایک طالب علم جب اس کتاب کو سمجھ کر پڑھنا شروع کرتا ہے تو اس کے سامنے ایک سنجیدہ اور معقول سوال پیدا ہوجاتا ہے۔ وہ یہ کہ اس کے ایک بہت بڑے حصے میں اہل کتاب اور خاص کر یہودیوں کے معاملات اور ان کا رویہ بہت تفصیل کے ساتھ زیر بحث آیا ہے۔ بالخصوص قرآن مجید کا پہلا ایک چوتھائی سے زیادہ حصہ جس میں سورہ بقرہ، سورہ آل عمران، سورہ نساء، سورہ مائدہ اور پھر سورہ اعراف شامل ہیں، اس میں یہود یوں کے حالات، رویے، تاریخ اور اللہ تعالیٰ کا ان کے ساتھ معاملہ بہت تفصیل سے زیر بحث آیا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک ایسی کتاب جس کو نہ یہودی اپنی کتاب مانتے ہیں، نہ کبھی کوئی یہودی اسے پڑھتا ہے، اس میں یہودیوں کی تاریخ اور معاملات کو اس طرح محفوظ کر دینے کی کیا حکمت ہے؟ یہ کتاب اگر مسلمانوں ہی کو پڑھنی ہے تو قیامت تک کے لیے یہودیوں کے احوال اور تاریخ اس کتاب میں جمع کر دینے کی کیا وجہ ہے؟
اس سوال کا جواب قرآن کی ابتدائی سورت یعنی البقرہ ہی میں موجود ہے۔ اس سورت میں یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہودیوں سے ایک عہد باندھا تھا۔ اس عہد کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ نے ان کو تمام جہانوں پر فضیلت عطا فرمائی تھی۔ یہ عہد اللہ کی اطاعت اور اس سے وفاداری کا تھا۔ پھر سورہ بقرہ ہی میں آگے چل کر یہ بتایا گیا ہے کہ ڈیڑھ ہزار برس کی اُس وقت تک کی تاریخ میں یہودیوں نے جب کبھی اس عہد کو توڑا ان کو سزا دی گئی اور جب نبھایا تو عزت ملی۔ پھر بتایا گیا کہ یہودیوں کے جرائم کی بنا پر ان سے یہ عہد ختم کیا جا رہا ہے اور اسی منصب پر ایک دوسری امت کو فائز کیا جا رہا ہے۔
چنانچہ یہی وہ پس منظر ہے جس میں یہودیوں کی تاریخ اور ان کے معاملات کو ایک چوتھائی سے زیادہ قرآن مجید میں محفوظ کر دیا گیا ہے۔ اس کا اصل مقصد یہ تھا کہ اِس نئی امت کی یادداشت کو ہمیشہ تازہ رکھا جائے کہ وہ کس منصب پر فائز ہورہے ہیں۔ انہیں یاد رہنا چاہیے کہ اس سے قبل ڈیڑ ھ ہزار سال میں اللہ تعالیٰ یہودیوں کے ساتھ کیا کرتے رہے ہیں۔ جو کرتے رہے ہیں وہ انہوں نے اپنی اس آخری کتاب میں لکھ دیا ہے۔
اب اس نئی امت کو یاد رہنا چاہیے کہ اس کے ساتھ بھی اللہ تعالیٰ کوئی جدا معاملہ نہیں کریں گے۔ یہود کو ان کے جرائم پر سزا ملی ہے تو نئی امت کو بھی کسی رعایت اور درگرز کی توقع نہیں رکھنی چاہیے۔ یہودیوں کے جرائم کی وجہ سے اگر غیر ملکی طاقتیں ان پر حکمران ہوئی ہیں تو نئی امت کے اخلاقی زوال کی اسے بھی یہ قیمت دینی ہوگی۔ یہودیوں کی گمراہی کا وبال اگر ان کے قتل عام کی شکل میں نکلا ہے تو نئی امت کے ساتھ بھی یہی ہوگا۔ پرانی امت کے گناہوں کی پاداش میں انہیں اگر جلا وطنی کا عذاب سہنا پڑا ہے تو نئی امت کے ساتھ بھی یہی کہانی دہرائی جائے گی۔
یہی معاملہ اطاعت و فرمانبرداری کی شکل میں ہوگا۔ اگر یہودیوں نے حضرت داؤد اور حضرت سلیمان کی قیادت میں اللہ کی شکر گزاری اور فرمانبرداری کو زندگی بنایا تو اس کے نتیجے میں آسمان و زمین نے ان پر اپنے خزانے کھول دیے تھے۔ یہی معاملہ نئی امت کے ساتھ ہوگا۔ اگر یہودیوں کی توبہ کے نتیجے میں اللہ نے یہودیوں کی ذلت کو عزت سے بدل دیا تھا تو نئی امت کی توبہ کے نتیجے میں وہ ان کے دن بھی پھیر دیں گے۔ اگر یہودیوں میں اصلاح کی سوچ پیدا ہوئی تو ان کا غلبہ پورے فلسطین پر ہوگیا۔ نئی امت بھی اپنی اصلاح کو مقصد بنا لے گی تو ایک دفعہ پھر پورے فلسطین بلکہ پوری دنیا پر اسی کا غلبہ ہوجائے گا۔ یہی قرآن مجید کے اس حصے کا سبق ہے۔ یہی یہود کی تاریخ کا سب سے بڑا سبق ہے۔