شریعت، ہدایت اور خدا کی عدالت ۔ ابویحییٰ
قرآن مجید صحیفہ رسالت ہے۔ یہ ایک ایسی ہستی پر نازل ہوا جسے دیگرانبیا علیہ السلام کی طرح دنیا تک ہدایت پہنچانے کی ذمہ داری ہی نہیں دی گئی بلکہ جسے بھیجے جانے کا مقصد یہ بھی تھا کہ جب وہ اپنی دعوت کو اتمام حجت تک پہنچا دے گا تواس کے مخاطبین کے لیے خدا کی عدالت لگادی جائے، منکرین پر عذاب آئے اور ماننے والوں کو بچاکر زمین کا وارث بنا دیا جائے۔ اس طرح اس کے بارے میں یہ ایک مسلمہ بن جائے کہ خدا کی طرف سے بھیجا ہوا یعنی اس کا رسول ہے۔
اس پس منظر میں قرآن مجید خدا کی ہدایت کے پہلو سے ایمان، اخلاق اور شریعت کے مباحث ہی کو بیان نہیں کرتا بلکہ خدا کی عدالت کے پہلو سے منکرین پر اتمام حجت کی وہ پوری روداد بھی بیان کرتا ہے جو سابقہ رسولوں کے معاملے میں پیش آئی اور آخری دفعہ آخری نبی اور رسول کے مخاطبین کے معاملے میں برپا کی گئی۔
ہدایت اوراس کے ذیل میں بیان کردہ ایمان، اخلاق اور شریعت کے مباحث اور احکام ابدی نوعیت کے ہیں۔ ان کی پاسداری ہر زمانے اور ہر علاقے کے لوگوں سے مطلوب ہے۔ اس کے برعکس خدا کی عدالت کے ضمن میں جو سزا و جزا اس دنیا میں برپا کی گئی، وہ کار رسالت کے ساتھ ہی خاص ہے۔ اس کا کوئی تعلق عام لوگوں سے نہیں ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ قرآن اس تفصیل سے بھرا ہوا ہے کہ رسول کی دعوت دنیا کے عذاب کی وعید سے شروع ہوتی ہے اور اس واقعہ کے عملاً ظہور پر ختم ہوجاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ چیز کسی اورشخص کو حاصل نہیں ہوسکتی۔
اس پہلو سے دیکھیے تو باقی انسانیت کے لیے خدا کی عدالت کا یہ تصور اپنی نوعیت کے لحاظ سے ایک حجت کے طور پر بیان ہوا ہے۔ اس سے یہ حقیقت آخری درجہ میں ثابت ہوتی ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سچے رسول تھے۔ تاہم خداکی عدالت کے اس تصور میں باقی انسانیت کے لیے کوئی مطالبہ نہیں کہ وہ اس خاص پہلو سے رسول کا اتباع کریں یا اس کے مشن کو اپنی زندگی بنا کر دنیا پر رسول کی طرح اتمام حجت کریں جس کے بعد لازماً منکرین پر عذاب آجائے۔
فراہی مکتب فکر کے اہل علم نے اس تصور کو نہ صرف پوری طرح واضح کیا ہے بلکہ اس کے اطلاقی پہلو کو نمایاں کرکے ان چند امور کی طرف اہل علم کو متوجہ کیا ہے جن میں رسالت کے ساتھ مخصوص احکام کی تعمیم کرکے اس شریعت کا موضوع بنا دیا گیا ہے جس کا مطالبہ تمام زمان و مکان کے لوگوں سے ہے۔ ان احکام میں دو چیزیں نمایاں ہیں۔ ایک رسول کی اپنی دعوت جس کواس کی نوعیت (یعنی اس کا تعلق خدا کی عدالت سے ہے اور جس کا لازمی نتیجہ خدائی سزا جزا کی شکل میں نکلے گا) کو نہ سمجھنے کی بنا پر اسے امت کا نصب العین بنا دیا گیا۔ دوسرے صحابہ کرام کا وہ قتال جس کا مقصد قرآن مجید کے مطابق صحابہ کے ہاتھوں منکرین کو عذاب دینا ہے،(التوبہ14:9)۔
چنانچہ اس پس منظر میں یہ توجہ دلائی جاتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اظہار دین کی جس نسبت کے ساتھ مبعوث کیے گئے وہ آپ کے ساتھ خاص تھا اور مکمل طور پر آپ کی حیات مبارکہ میں ہوچکا ہے۔ اس کا بعد کے مسلمانوں سے کوئی تعلق ہے اور نہ اس سے عام مسلمانوں کی زندگی کا نصب العین اخذ کیا جاسکتا ہے۔ ہاں دعوت دین کا کام اپنے اپنے پہلوؤں سے فرد، علماء اور ریاست سب کرتے رہیں گے کہ شریعت نے اس پہلو سے ان کے سامنے مطالبات رکھے ہیں۔
اسی طرح منکرین پر اتمام حجت کے بعد انھیں سزا دینے کے لیے جو جہاد صحابہ کرام نے کیا، وہ بھی آج کے لوگوں سے متعلق نہیں ہے۔ بلاشبہ انھیں جہاد کا حکم شریعت کے ایک حکم کے طور پر دیا گیا اور اس حیثیت میں جہاد شریعت کا ایک ابدی حکم ہے، لیکن صحابہ کرام کے سامنے اس کا ایک دوسرا مقصد بھی رکھا گیا تھا یعنی سرزمین عرب میں غلبہ دین۔ اس مقصد سے جہاد کوئی اور نہیں کرسکتا۔ کرے گا تو وہ نتیجہ نہیں نکلے گا جس کا وعدہ قرآن میں کیا گیا اور جو صحابہ کے معاملے میں حاصل ہوبھی گیا تھا۔
انھی دو دائروں کے ذیل میں کچھ فروعی چیزیں بھی ہیں جن کے بارے میں یہ توجہ دلائی جاتی ہے کہ یہ عمومی شریعت کا حصہ نہیں ہیں بلکہ اسی اتمام حجت کے ذیل میں آتی ہیں۔ تاہم ان سے ہٹ کر ایمان و اخلاق کی پوری دعوت اور مطالبات اور شریعت کے تمام احکام ابدی نوعیت کے ہیں۔ ان کا کوئی تعلق اس دنیا میں لگنے والی خدائی عدالت سے نہیں ہے۔ ان کی پابندی ہر زمانے اور ہر علاقے کے لوگوں سے مطلوب ہے۔
شریعت کے ان احکام میں سے کسی چیز کی تخصیص کسی اور وجہ سے تو کی جاسکتی ہے، مگر قانون اتمام حجت کی وجہ سے نہیں کی جاسکتی۔ کیونکہ اتمام حجت کا قانون عذاب کے چیلنج سے شروع ہوتا ہے اور عذاب آنے پر ختم ہوتا ہے۔ یہ چیز صرف رسول کے ساتھ خاص ہے۔
اسی طرح خدا کی اس عدالت نے آخری دفعہ سزا کا جو فیصلہ سنایا اس میں صحابہ کو مخاطب کر کے بتا دیا گیا تھا کہ آلہ عذاب تمھاری تلواریں ہوں گی۔ انھیں یہ بھی بتا دیا گیا تھا کہ خدا کے فرشتے اس عمل میں تمھارے ساتھ ہیں۔ یہی نہیں بلکہ اس کا پیشگی نتیجہ قرآن مجید نے ان واقعات کے ظہور سے پہلے بتا دیا تھا۔ ظاہر ہے یہ چیزیں کسی اور انسان یا گروہ کو حاصل نہیں ہوسکتیں۔
اس ضمن میں ایک آخری قابل وضاحت بات یہ ہے کہ قرآن مجید کے مطالعے میں ایک طالب علم یہ کیسے فیصلہ کرے کون سی چیز خاص ہے اور کون سی عام۔ اس بات کو بھی ہدایت اور عدالت کے فرق کی روشنی میں سمجھا جاسکتا ہے۔ جو چیز ہدایت کے ذیل کی ہے یعنی ایمان، اخلاق اور شریعت تو اس کے تقاضوں کی پابندی ہمارے لیے بھی ضروری ہے۔ اس سے ہٹ کر جو کچھ ہے اس کا تعلق خدا کی عدالت سے ہے۔ اس میں ہمارے لیے احکام تو نہیں نکلتے، مگر انذار، تبشیر، تذکیر، اسباق اور دلائل ضرور موجود ہیں۔ ان چیزوں کی ہمیں بھی ضرورت ہے اوراسی بنا پر انھیں قرآن مجید کا ایک مستقل حصہ بنا کر قیامت تک کے لیے محفوظ کردیا گیا ہے۔