شرعی حلالہ سے شرعی بورڈ تک ۔ ابویحییٰ
آج صبح اخبار میں شرعی مسائل کے کالم میں ایک ایسے مسئلے کی تفصیلات پڑھیں کہ دل دہل کر رہ گیا۔ مفتی صاحب سے مسئلہ یہ دریافت کیا گیا کہ ایک نوجوان جوڑے میں تین طلاقیں ہوگئیں۔ اور جس طرح ہمارے ہاں طلاق دینے کا دستور ہے، لڑکے نے تین طلاقیں ایک ساتھ دیں۔ ایک برس بعد محسوس ہوا کہ فیصلہ غلط تھا۔ اس لیے دونوں دوبارہ نکاح کے لیے آمادہ ہوگئے۔ مگر انہیں بتایا گیا کہ دوبارہ ساتھ رہنے کے لیے حلالہ ہونا ضروری تھا۔ چنانچہ اس بات پر دونوں آمادہ ہوگئے کہ لڑکی کو آگ کے اس سمندر سے گزارا جائے۔
حلالہ کے اس ’کار خیر‘ کے لیے ایک اور صاحب نے اپنی خدمات پیش کیں۔ چنانچہ لڑکی کے باپ نے نکاح پڑھایا۔ اور اس موقعہ پر عارضی ’دولہا‘ کے علاوہ صرف لڑکی کی ماں موجود تھی۔ یہ نکاح ایک ماہ تک جاری رہا جس میں ’دولہا‘ نے تین مرتبہ اس بات کو یقینی بنایا کہ واقعی ’حلالہ‘ ہوگیا ہے۔ پھر ایک روز ’دولہا‘ نے لڑکی کے باپ کو فون کرکے لڑکی کو طلاق دے دی۔
جب یہ مسئلہ مفتی صاحب کے سامنے پیش ہوا تو انہوں مختلف اہل علم کی رائے کو بیان کرکے یہ فیصلہ دیا کہ ہر چند کہ اس عمل میں تین دفعہ تعلق زن و شو قائم ہوا ہے اور حلالہ کی شرط پوری ہوگئی ہے، مگر نکاح کے موقعہ پر دو گواہ نہیں تھے، اس لیے نکاح فاسد ہے۔ جب نکاح ہی نہیں ہوا تو طلاق بھی معتبر نہیں ہے۔ اس لیے اصل مسئلہ جوں کا توں باقی ہے اور لڑکی کا اپنے پہلے شوہر سے نکاح ابھی تک جائز نہیں۔
یہ کسی ایک لڑکی یا جوڑے کا معاملہ نہیں، ہمارے معاشرے میں آئے دن ایسے واقعات پیش آتے رہتے ہیں۔ ہمارے ہاں ہمیشہ تین طلاق ہی دی جاتی ہیں۔ اکثر اوقات یہ جذبات میں آکر دی جاتی ہیں اس لیے کچھ عرصے میں غلطی کا احساس ہوجاتا ہے۔ پھر لوگ علما کے پاس بھاگتے پھرتے ہیں۔ پھر بارہا یہ ایسی عبرتناک کہانیاں وجود میں آتی ہیں جن میں سے ایک کو اوپر بیان کیا گیا ہے۔
ہم اس سلسلے میں بنیادی طور پر علما کو ذمے دار سمجھتے ہیں۔ ان کے پاس جمعہ کی نماز کا وہ پلیٹ فارم میسر ہے، جس کی بنیاد پر وہ قوم کو، اگر چاہیں تو پورا دین سمجھا سکتے ہیں۔ مگر ان میں سے اکثر نہ خود دین کی گہری بصیرت رکھتے ہیں اور نہ انہیں دین سمجھانے سے کوئی دلچسپی ہے۔ وگرنہ ہر صاحب علم یہ جانتا ہے کہ قرآن، حدیث اور تمام ائمہ کے نزدیک طلاق دینے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ ایک وقت میں ایک طلاق دی جائے۔ فقہا کی اصطلاح میں اسے احسن یا سنی طلاق کہا جاتا ہے۔ یہ طلاق ماہواری کے دنوں میں نہ دی جائے بلکہ ماہواری ختم ہونے کے بعد اس وقت دی جائے جب پاکی کے ان ایام میں میاں بیوی میں ملاقات نہ ہوئی ہو۔
یہ طلاق دینے کے بعد کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوتا۔ تین حیض کی عدت کے اندر میاں اگر چاہے تو رجوع کرلے اور دونوں بغیر نکاح کے میاں بیوی کی حیثیت سے رہ سکتے ہیں۔ جبکہ تین ماہ بعد بیوی الگ ہوجائے گی اور پھر چاہے تو وہ کسی اور سے نکاح کرے یا چاہے تو دوبارہ اپنے پرانے شوہر سے نکاح کرکے ساتھ رہے۔
یہ وہ طریقہ ہے جس پر کسی کو کوئی اختلاف نہیں۔ یہ قرآن میں واضح طور پر لکھا ہوا ہے۔ صرف اس طریقے کو بتانے کے لیے سال میں جمعے کا ایک خطبہ وقف کردیا جائے تو پوری قوم کو معلوم ہوجائے گا کہ اصل بات کیا ہے۔ مگر کیا کیجیے دین کا صحیح علم پھیلانا ہماری ترجیحات میں سرے سے شامل ہی نہیں ہے۔ جس کے نتیجے میں آئے دن ایسے دلخراش واقعات پیش آتے رہتے ہیں۔
باقی رہا ’حلالہ‘ کے مروجہ تصور کا سوال تو اس پر کوئی تبصرہ کیے بغیر ہم صرف ایک سوال قارئین کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں۔ اگر کوئی عورت حالات کی ستم ظریفی کا شکار کچھ لڑکیوں کو اپنے پاس رکھ لے۔ پھر ہر روز اس کے پاس شہر کے عیاش امرا آئیں۔ ہر روز نکاح منعقد ہوں۔ جس میں اس کا ایک مرد ملازم نکاح پڑھائے اور دو مرد ملازم گواہ مقرر ہوں۔ مہر کے نام پر ٹھیک ٹھیک پیسے ادا کیے جائیں۔ جب ان عیاش بدکرداروں کا دل بھر جائے تو یہ طلاق کے تین لفظ ادا کریں۔ پھر لڑکی کو تین ماہ کی ’چھٹی‘ مل جائے اور وہ مرد ایک نئی ’بیوی‘ کا انتخاب کرلے۔ اس پورے معاملے کو کیا کہا جائے گا۔ اگر شرعی حلالہ ٹھیک ہے تو یہ شرعی نکاح کیسے غلط ہوگیا۔ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب ہم سب کو مل کر سوچنا چاہیے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ بینکوں کی دیکھا دیکھی کوئی ستم ظریف، کسی ’شرعی بورڈ ‘کی نگرانی میں یہ کام بھی شروع کر دے۔