شادی اور عورت ۔ ابویحییٰ
ہمارے معاشرے میں شادی کے بعد ایک لڑکی اپنے والدین کا گھر چھوڑ کر اپنے سسرال چلی جاتی ہے۔ اس کے بعد عام طور پر پوری سسرال کے کام کاج کا بوجھ اس پر ڈال دیا جاتا ہے۔ یہ خاتون اگر شادی کے بعد اپنے شوہر سے علیحدہ گھر کا مطالبہ کرے تو معاشرے میں خاتون کی اس بات کو معیوب بات سمجھا جاتا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس خاتون کو کس اصول کے تحت اس کے والدین اور گھر والوں سے جدا کر کے پابندِ سسرال کیا جاتا ہے۔ کیا لڑکی کے والدین اپنی بیٹی کا سودا کرتے ہیں جس کے عوض وہ سسرال کے حوالے کردی جاتی ہے؟ کیا شوہر لڑکی کی قیمت ادا کرتا ہے کہ اسے لڑکی سے اپنی اور اپنے گھر والوں کی غلامانہ خدمت لینے کا حق حاصل ہوجاتا ہے؟ گھر چھوڑنا اگر نیا خاندان بسانے کی قیمت ہے تو یہ قیمت صرف لڑکی کیوں ادا کرتی ہے؟ اصولی طور پر تو لڑکی اور لڑکے دونوں کو اپنا گھر چھوڑ کر ایک نیا گھر آباد کرنا چاہیے۔
یہ وہ سوالات ہیں جو دورِ جدید میں تیزی کے ساتھ ذہنوں میں پیدا ہو رہے ہیں۔ن کاح چونکہ ایک مذہبی رسم ہے اس لیے عام طور پر یہ خیال کیا جاتاہے کہ ان باتوں کو مذہب کی تائید حاصل ہے۔ یہ بات درست نہیں ہے۔ ہمارے یہاں نکاح کے نام پر جو کچھ ہوتا ہے وہ اکثر و بیشتر ہندو ثقافت کی عطا ہے نہ کہ اسلام کی تعلیم۔
اسلام نکاح کے بارے میں بڑی فطری جگہ پر کھڑا ہے۔ وہ اسے ایک ایسا معاہدہ قرار دیتا ہے جس میں ایک مرد اور ایک عورت مل کر خاندان کا ادارہ قائم کرتے ہیں۔ مرد اس ادارے کا انتظامی سربراہ ہوتا ہے۔ جبکہ عورت اس کی ماتحتی میں خاندان کا نظم و نسق چلانے کی ذمہ داری اس شرط کے ساتھ قبول کرتی ہے کہ اس کے معاش کی کل ذمہ داری مرد پر ہوگی۔ معاہدے کے دونوں فریقین کے خاندان والے اور والدین یکساں طور پر عزت، احترام، محبت، اور خدمت کے مستحق ہیں۔ اس سلسلے میں کوئی امتیازت برتنا دین کی ہدایت نہیں۔
اسلام میں نکاح کا تصوریہ نہیں کہ لڑکی کو اس کے والدین سے جدا کر کے اجنبیوں کے حوالہ کر دیا جائے۔ وہ کسی خاندان سے اس کا کوئی فرد کم نہیں کرنا چاہتا ہے بلکہ دونوں خاندانوں میں ایک ایک فرد کا مزید اضافہ کرنا چاہتا ہے۔ یعنی لڑکی، لڑکے کے والدین اور اقربا کو اپنے عزیز سمجھے اور لڑکا، لڑکی کے رشتہ داروں کو اپنے خاندان میں شمار کرنے لگے۔ دین کی تعلیمات انسانوں کو تقسیم نہیں، انہیں جمع کر دیتی ہیں۔
تاہم انسان چونکہ ایک معاشرے میں رہتے بستے ہیں اس لیے دین کسی معاشرے کے عرف کی بڑی رعایت کرتا ہے۔ یعنی معاشرتی روایات میں سے جو چیزیں اجتماعی مصلحتوں کی بنا پر رواج پاگئی ہوں انہیں قبول کرلیا جائے۔ ہمارا معاشرتی نظام میں مشترکہ خاندان اس کی ایک مثال ہے۔ ایک شادی شدہ نوجوان چونکہ ابتدائی دنوں میں خود کفیل نہیں ہوتا اس لیے وہ اپنی بیوی کو اپنے والدین کے گھر رکھنے پر مجبور ہوتا ہے۔ دین کی نظر میں یہ بات قابل اعتراض نہیں ہے۔ قابل اعتراض بات یہ ہے کہ حقوق صرف مرد، اس کے والدین اور اقربا کے سمجھے جائیں۔ یہ خیال کیا جائے کہ یہ خاتون بس اب اپنے گھر والوں کو بھول کر لڑکے کے والدین کی خدمت میں مشغول رہے۔ ہفتوں بلکہ مہینوں لڑکی کا اس کے گھر والوں سے ملنے سے روکا جائے صرف اس بنا پر کہ اس کی غیر موجودگی میں سسرال کے کام کاج کا بوجھ کون اٹھائے گا۔ جبکہ دوسری طرف لڑکے کو بھولے سے بھی لڑکی کے والدین کی خدمت کا خیال نہ آئے۔ لڑکی کے گھر والوں سے وہ ہمیشہ ناز برداریاں کرنے کی توقع رکھے۔ جہیز کا مال کھانے کے بعد بھی ہمہ وقت سسرال سے کچھ نہ کچھ لینے کے لیے وہ تیار رہے۔ بیوی کے گھر والوں سے اس کا تعلق انسیت و محبت کا نہیں بلکہ اجنبیت کا ہو۔
اس رویہ کا یقیناََ دین سے کوئی تعلق نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں کو صاف بتایا ہے کہ ان کی بیوی کے والدین ان کے والدین کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کی خدمت و احترام اسی طرح ان پر لازم ہے جس طرح لڑکی پر اس کے والدین کی خدمت و احترام فرض ہے۔
نکاح انسانوں کی خرید و فروخت کا نام نہیں۔ یہ خدمت و محبت کے ایک دو طرفہ رشتے کا نام ہے۔ مرد ہو یا عورت ہر فریق پر اس تعلق کو نبھانے کی ذمہ داری یکساں طور پر عائد ہوتی ہے۔