سائنس خدا کا مقدمہ ثابت کرتی ہے
ترجمہ: ہادریہ روزی
سن 1966ء میں ٹائمز نامی رسالے میں ’’کیا خدا مردہ ہے؟‘‘ کے عنوان سے ایک آرٹیکل شائع ہوا۔ اس کے نتیجے میں زیادہ تر لوگوں کا ماننا تھا کہ خدا کا تصور اب دقیانوسی ہوچکا ہے۔ کیونکہ سائنس کی ترقی کے بعد اب کائنات کی توجیہہ کے لیے خدا کے ذکر کی ضرورت باقی نہیں رہی تھی۔ اس کے باوجود آج جہاں سے خدا کی موجودگی کے شواہد مل رہے ہیں وہ کوئی اور شعبہ نہیں بلکہ خود سائنس ہی ہے۔
کہانی کچھ یوں ہے کہ جب ٹائمز نے یہ مضمون شائع کیا، اسی سال مشہور ماہرِ فلکیات کارل ساگان نے یہ تھیوری پیش کی کہ کسی سیارے پر زندگی موجود ہونے کے لیے دو باتیں ہونا لازمی ہیں:
۱۔ ایک ستارے کا موجود ہونا
۲۔ اور ایک سیارے کا اُس ستارے سے خصوصی فاصلے پر موجود ہونا
اس حساب سے کائنات کے لگ بھگ دس ارب سنکھ (octillion) یعنی 1027 سیاروں میں سے دس ارب دس نیلم (septillion) یعنی 1024 سیاروں پر زندگی کے آثار پائے جانے چاہئیں۔ اس تھیوری نے سائنسدانوں کی امیدوں کو تقویت بخشی اور وہ ایک وسیع ٹیلی سکوپک نیٹ ورک کے ذریعے خلاء سے موصول ہونے والے کسی سگنل کا انتظار کرنے لگے۔ برسوں بیت گئے مگر یہ خاموشی نہ ٹوٹی البتہ امیدیں ٹوٹ گئیں۔ اور پھر نئی تحقیق نے یہ ثابت کر دیا کہ زندگی کی موجودگی محض اُن دو اصولوں پر منحصر نہیں بلکہ ایسے بیسیوں اور اصول ہیں جن پر پورا اتر کر ہی کوئی سیارہ اس قابل ہوتا ہے کہ وہاں زندہ رہنا ممکن ہو۔ یوں سائنسدانوں کے نظریاتی حیات بخش سیاروں کی تعداد گھٹتی چلی گئی۔ گھٹتے گھٹتے تعداد صفر تک پہنچ گئی۔ شواہد سے ثابت ہوگیا کہ اس قاتل کائنات میں زندگی کی کوئی رمق باقی رہنا ناممکن سی بات ہے۔ یہاں تک کہ ہماری زمین پر بھی اس کا امکان صفر ہی ہے۔
آج کسی سیارے پر زندگی کی موجود گی کی شرائط 200 سے اوپر جاپہنچی ہیں۔ جن میں سے ایک شرط پر بھی اگر سیارہ پورا نہ اترے تو تمام سسٹم ہی تباہ ہوجائے گا اور زندگی باقی نہ رہے گی۔ اس سب کے باوجود ہم اسی کائنات میں زندہ ہیں۔ نہ صرف زندہ ہیں بلکہ بڑے آرام سے زندگی کے متعلق گفتگو کر رہے ہیں۔ یہ معجزہ نہیں تو اور کیا ہے۔ کیا وہ تمام شرائط ایک حادثے کے نتیجے میں اتنے بہترین انداز میں پوری ہوگئیں؟ اندھے مادے کے فلسفے سے اتفاق کہاں کا انصاف ہے؟ کیا ایک بے انتہا ذہین سُپر پاور کی موجودگی کو تسلیم کرنا زیادہ بہتر آپشن نہیں، جس نے ان نا قابلِ تصور عوامل کی بہ یک وقت موجودگی کو یقینی بنایا تاکہ ایک مکمل حیات بخش نظام عمل میں آسکے؟
مزید حیران کن بات یہ ہے کہ پوری کائنات کو وجود میں لانے جیسے معجزے کے مقابلے میں، کسی ایک سیارے کو قابلِ حیات بنانے کے لیے اس کے نوک پلک سنوارنے کا عمل تو کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتا۔ کائنات کے قائم و دائم رہنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ چار قسم کی قوتیں؛ کشش ثقل (Gravity)، برقی مقناطیسی قوت (Electromagnetic force)، طاقتور اور کمزور نیوکلیائی قوتیں (Strong and weak nuclear forces) ایک مخصوص تناسب کے ساتھ موجود ہوں۔ یہ تناسب بالکل قطعی (Exact) ہونا چاہیے کیونکہ اگر کسی ایک عنصر کی معمولی سی کمی یا زیادتی ہوجائے تو کائنات کا وجود میں آنا ممکن نہیں رہتا۔ مثال کے طور پر اگر کائنات میں نیوکلیائی قوتوں (Nuclear forces) اور برقی مقناطیسی قوتوں (Electromagnetic forces) کا تناسب (0.0000001 ratio) کے معمولی ترین درجے میں بھی متغیر(vary) ہوجائے تو ایک ستارے کا وجود بھی ناممکن ہوجاتا ہے۔ یہ تو ہوئی ایک اصول کی بات، ایسے ہزاروں دوسرے معیار اور شرائط ہیں جن کا متعین تناسب میں پورا ہونا اتنا پیچیدہ عمل ہے کہ کائنات کا خودبخود وجود میں آنے والا فلسفہ عقل و فہم سے ماورا ہے۔ یہ تو ایسے ہی ہے جیسے کسی سکے کو دس ہزار سے زائد مرتبہ اچھالنے پر بھی ہر بار ایک ہی نتیجہ نکلتا رہے۔
فریڈ ہوئل نامی ماہرِ فلکیات کا کہنا ہے کہ ان انکشافات پر اس کا الحادی نظریہ دھرا کا دھرا رہ گیا۔ مزید یہ کہ عقلِ عام یہ کہتی ہے کہ ان تمام حقائق کی روشنی میں معلوم ہوتا ہے کہ کسی مہا ذہین(Supreme) طاقت نے کیمیا (chemistry)، حیاتیات (biology) اور طبعیات (physics) کے اصولوں کے ساتھ کھیل کھیلا ہے۔ اس کا کوئی جواب نہیں۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر جان لیناکس کہتے ہیں کہ ہماری کائنات کے متعلق ہمارا علم جتنا وسیع ہوتا جائے گا، ایک خدا پر یقین اتنا ہی پختہ ہوتا جائے گا۔ کیونکہ یہی وضاحت ہے جو کائنات اور ہمارے وجود کے متعلق ہمارے ہر سوال کا جواب ہے۔
ہمیں یہ مان لینا چاہیے کہ ہماری کائنات سب معجزوں سے بڑا معجزہ ہے۔ اور اس ادراک کے بعد، یہ بات بھی روزِ روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ یہاں کا ہر ستارہ، ہر سیارہ، ہر سورج اپنی پوری آب و تاب سے ایک عظیم طاقت کی جانب اشارہ کرتا ہے، جو ان سب قوتوں سے کہیں آگے ہے۔