فکری مباحث اور تیسرا فریق ۔ ابویحییٰ
پاکستان میں اس وقت بعض فکری مباحث پوری قوت کے ساتھ اٹھ چکے ہیں۔ ہمارے جیسے طالب علموں کے لیے جن کی زندگی فکری دریافت اور تحقیق کے عمل مسلسل سے گزری ہے، جہاں ہر قدم پر اپنے بنائے ہوئے بتوں کو توڑنا پڑتا ہے، اس میں کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ تاہم یہ ’’بت شکنی‘‘ کوئی آسان کام نہیں۔ خاص کر ان لوگوں کے لیے جن کی ساری زندگی صرف اپنا نقطہ نظر سنتے ہوئے اور اسے ہی واحد حق سمجھ کر گزرتی ہے۔ ان کے لیے یہ صورتحال بہت وحشتناک ہوتی ہے۔
ایسے میں یہ ضروری محسوس ہوتا ہے کہ ہر دو طرف کے لوگوں کو کہ دونوں ہی مسلمان اور مخلص ہیں، یہ یاد دہانی کرا دی جائے کہ قرآن مجید کے مطابق نبوت کے بعد بلند ترین مقام صدیقین کا ہوتا ہے۔ یہ مقام اپنے تعصبات سے بلند ہوکر سچائی کو قبول کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔ مناظرانہ سوچ کے ان لوگوں کو یہ مقام کبھی نہیں ملتا جن کا مقصد صرف اپنی بات کو سچا ثابت کرنا ہوتا ہے۔
مومن اپنی بات کو سچا ثابت کرنے کے بجائے سچائی کو حاصل کرنے اور اس کی تصدیق کرنے میں زیادہ دلچسپی رکھتا ہے۔ چنانچہ وہ اپنی بات سمجھانے کی خواہش تو یقینا رکھتا ہے، مگر دوسرے کی بات سمجھنے کی کوشش بھی کرتا ہے۔ بارہا وہ اپنی بات کہنے جاتا ہے، مگر دوسرے کی سن کر آجاتا ہے۔ وہ اپنے نقطہ نظر کے دلائل رکھتا ہے، مگر ان کی کمزوری واضح ہوتے ہی اپنے نقطہ نظر کو چھوڑ کر دوسرے کی سچائی کا اعتراف کر لیتا ہے۔
مومن کے اس رویے کی بنیادی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ جانتا ہے کہ ایسے فکری مباحث میں تیسرا فریق خود پروردگار عالم ہوتا ہے۔ اور اگر رب کو راضی کرنا ہے اور اس سے صدیقیت کا پروانہ لینا ہے تو پھر انانیت، تعصب اور ہٹ دھری کوئی راستہ نہیں ہے۔ جس نے یہ بات سمجھ لی وہی آج کے دور کا صدیق ہے۔ وہی جنت کے اعلیٰ ترین درجات کا حقدار ہے۔