سردیوں کی نماز ۔ ابویحییٰ
اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر دن میں پانچ وقت نماز فرض کی ہے۔ یہ پانچ نمازیں شب و روز کے آٹھ پہروں میں سے پانچ پر فرض کی گئی ہیں۔ دن کے آغاز پر فجر، دوپہر میں ظہر، سہ پہر میں عصر، سورج ڈوبنے کے بعد مغرب اور سونے سے قبل عشا کی نماز ادا کرنا ضروری ہے۔
کچھ لوگوں کو یہ نمازیں بہت زیادہ لگتی ہیں۔ خاص طور پر سردیوں میں ظہر سے عشاء تک کی نمازوں کا باہمی وقفہ بہت کم ہوتا ہے۔ ایسے بہت سے لوگوں کو محسوس یہی ہوتا ہے کہ ایک نماز سے فارغ نہیں ہوئے کہ دوسری کا وقت ہوگیا۔ بہت سے لوگ اس وجہ سے نماز ہی چھوڑ دیتے ہیں۔ کچھ لوگ نماز پڑھ لیتے ہیں، لیکن ان کے لیے یہ ایک بڑا بوجھل عمل ہوتا ہے۔
یہ رویہ نماز کے قانون کو درست طورپر نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے۔ دین میں دیگر عبادات کی طرح نماز کی ایک سطح فرض کی ادائیگی کی ہے جس میں انسان جواب دہی سے بچ جاتا ہے۔ دوسری سطح نماز کے جمال و کمال کی ہے ۔پہلی سطح میں کوئی شخص فجر میں دو، ظہر، عصر اور عشاء میں چار چار اور مغرب میں صرف تین رکعتیں اپنے گھر میں بھی پڑھ لے تو فرض ادا ہوجائے گا۔ یہ کل سترہ رکعتیں بنتی ہیں جن کی ادائیگی میں وضو کا وقت ملا کر بھی آدھے گھنٹے سے زیادہ وقت نہیں لگتا۔
اس کے بعد نماز کا جمال و کمال آتا ہے۔ اس میں جس کی جتنی ہمت، شوق اور جذبہ ہوگا وہ اتنا ہی آگے بڑھتا جائے گا۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بعد ہر چیز کو فضیلت کا موضوع قرار دیا ہے۔ نماز باجماعت ہو، مسجد میں ہو، اس کے ساتھ نوافل پڑھے جائیں جنھیں ہمارے ہاں نماز کی سنتیں کہا جاتا ہے، نماز میں طویل قرأت ہو، خشوع و خضوع ہو؛ یہ سب وہ چیزیں ہیں جو نماز کو زیادہ سے زیادہ مقبول بناتی ہیں۔ مگر یہ وہ سطح ہے جسے ہر شخص اپنے ذوق، حالات، مصروفیات اور جذبے کے لحاظ سے خود طے کرے گا یا اس کی کیفیات خود طے کر دیں گی۔
نماز کا یہ قانون اور نماز کی ادائیگی کی یہ دو سطحیں اگر واضح ہوجائیں تو پھر ہر شخص اپنے حالات کے لحاظ سے نماز کو بہتر سے بہتر طریقے پر ادا کرے گا۔ وہ نماز کو ترک نہیں کرے گا۔ اسے نماز بوجھ نہیں لگے گی۔ وہ نماز کی فضیلت میں سے کسی فضیلت کو چھوڑے گا تو اسے احساس جرم نہیں ہوگا۔
مثلاً ایک شخص کسی وجہ سے مسجد میں جانے کی فرصت یا ہمت نہیں پاتا، وہ کسی وقت فرض کے علاوہ نوافل کی ادائیگی کا وقت نہیں پاتا، ایسے میں وہ صرف فرض نماز اپنی جگہ پر ہی ادا کرکے خود کو یاد دلا دے گا کہ وہ اپنے رب کا بندہ ہے۔ اسے خدا سے دوری کا کوئی احساس نہیں ہوگا۔ یہ جذبہ ایک دوسرے وقت میں اسے مجبور کرے گا کہ وہ نوافل بھی پڑھے اور مسجد بھی جائے۔ مسجد جاتے ہوئے وہ ہر قدم پر محسوس کرے گا کہ گناہوں کی آلودگیاں دھل رہی ہیں۔ نیکیاں بڑھ رہی ہیں۔ مسجد کے روحانی ماحول سے وہ اپنے ایمان کو تازہ کرے گا۔ اجتماعی عبادت کی فضیلت حاصل کرے گا۔
یہ چیزیں اس کی روحانیت کو بہت مضبوط کر دیں گی۔ ایسا شخص مشکل ترین حالات میں بھی یہ عزم کرے گا کہ فرض نماز کسی صورت میں نہ چھوڑے۔ مصروف ترین لمحات میں بھی خدا کے سامنے ماتھا ٹیک کر اظہار بندگی کر دے۔ دنیا کو یہ بتا دے کہ وہ اپنے رب کا بندہ ہے۔مصروفیت میں بھی بندہ ہے۔ بوریت اور بیزاری کی کیفیت میں بھی بندہ ہے۔ مجلسی گفتگو کے دوران میں بھی بندہ ہے۔ دفتر اور دوکان کے کاروبار میں بھی بندہ ہے۔
نماز کا اصل قانون اور اس قانون کی سمجھ انسان کو ایسا ہی بندہ بناتی ہے۔ ایسے بندے کے پاس نماز چھوڑنے کا کوئی عذر نہیں ہوتا۔ سردی ہو یا گرمی، صبح ہو یا شام، گھر ہو یا دفتر نماز کے قانون کا درست فہم ایسے انسان کو کبھی بے نمازی نہیں بننے دیتا۔ اس کی نماز کو اس پر کبھی بوجھ نہیں بننے دیتا۔ اس کی نمازفرض ہو یا نفل، گھر میں ہو یا مسجد میں اسے خدا سے قریب ہی کرے گی۔ یہی وہ نمازی ہے جو کل قیامت کے دن سب سے بڑھ کر خدا کے قریب ہوگا۔