سانسوں کی مالا پہ ۔ ابویحییٰ
میرا بائی سولہویں صدی عیسوی کی ایک ہندو شاعرہ تھیں۔ وہ راٹھور قبیلے کے راجپوت سردار رتن سنگھ کی بیٹی تھیں اور بعد ازاں راجہ بھوپال داس کی بیوی بنیں جو میواڑ (موجودہ ادے پور) کے حکمران رانا سانگا کے بیٹے تھے۔ تاہم بچپن ہی سے میرا بائی کرشن کے عشق کا شکار تھیں۔ کرشن ہندو دیومالا مہابھارت کے ایک اہم کردار تھے۔ بھگوت گیتا جسے ہندو فلسفے کا دل مانا جاتا ہے، انھی کی گفتگو کا بیان ہے۔ وشنو دیوتا کے ایک اوتار کے طور پر انھیں ہندو مت میں ایک بھگوان کی حیثیت حاصل ہے۔
میرا بائی جو کرشن کے زمانے کے بہت بعد پیدا ہوئیں، ان کے عشق کا ایسا شکار ہوئیں کہ چار پانچ سال کی عمر میں ہی انھوں نے کرشن کی مورتی کو اپنا ’’شوہر‘‘ مان لیا تھا اور ساری زندگی ان کے نام پر گزار دی۔ وہ چونکہ شادی شدہ تھیں اس لیے اپنے اس عشق پر انھیں سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا لیکن وہ ڈٹی رہیں اور شوہر کے انتقال کے بعد دنیوی زندگی ترک کرکے کرشن کے مندر میں بھجن گاتی رہیں۔ کرشن کا عشق ہی ان کی ساری شاعری کا مرکزی خیال ہے۔ ان کا سب سے مشہور بھجن ــ’’سانسوں کی مالا پہ سمروں میں پیا کا نام‘‘ ہے جسے مشہور قوال اور موسیقار نصرت فتح علی خان صاحب نے گیت کے قالب میں ڈھال کر دنیا بھر میں مشہور کر دیا۔
سانسوں کی مالا پر محبوب کا نام جپنا ایک رہبانی تصور ہے جو ہمارے اہل تصوف میں پاس انفاس کے نام سے جانا جاتا ہے۔ مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان دن میں 23 ہزار دفعہ سانس لیتا ہے اور اس میں ایک تہائی سانس سوتے ہوئے لیا جاتا ہے۔ اس لیے ہر سانس میں محبوب کے نام کی مالا جپنا عملی طور ممکن نہیں۔
قرآن مجید اللہ تعالیٰ کے ذکر یا اس کی یاد کا ایسا کوئی تصور پیش نہیں کرتا۔ قرآن مجید کا تصور ذکر ایک انتہائی معقول، فطری اور عملی نتائج پیدا کرنے والا تصور ہے۔ اس کا پہلا جز خود قرآن مجید ہے جس کا نام ہی الذکر ہے۔ اس کو پڑھتے ہی انسان کو اپنے بارے میں عظیم کائناتی منصوبے کی یاددہانی ہوجاتی ہے۔ انسان کو معلوم ہوجاتا ہے کہ اس کائنات کا ایک خالق و مالک ہے جو اپنے پیغمبروں کے ذریعے سے انسانوں کو جینے کی درست راہ دکھاتا ہے۔ یہ بندگی کا راستہ ہے جس پر چل کر انسان آخرت کی ختم نہ ہونے والی ابدی کامیابی حاصل کرسکتا ہے۔ بندگی کایہ تصور انسان کی فطرت میں پیوست ہے اور قرآن مجید اسی راہ کی یاددہانی کراتا اور تفصیل کرتا ہے۔
خدا کی یاد کا دوسرا پہلو نماز ہے جس میں تلاوت قرآن، اذکار و اعمال کے ذریعے سے بندے اور انسان کے تعلق کی یاددہانی کرائی جاتی ہے۔ اگر نماز کے اذکار و اعمال کو سمجھ کر اسے پڑھا جائے تو اس سے زیادہ بہتر یاددہانی کا طریقہ کوئی اور ممکن نہیں۔
خد اکی یاد کا تیسرا پہلو وہ ہے جسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عملی زندگی میں اختیار کیا ہے۔ اس میں حضور نے ذکر الٰہی کو زندگی کے معمولات، روزمرہ اوقات اور آنے جانے کے مقامات سے متعلق کر دیا۔ معمولات کی مثال کھانے پینے، سونے جاگنے وغیرہ کے موقع پر کیے گئے اذکار ہیں۔ اوقات کی ایک مثال صبح و شام کے اذکار ہیں اور مقامات کی مثال گھر میں آنے جانے اور مسجد میں داخلے اور نکلنے کے اذکار ہیں۔
ان تین پہلوؤں سے جب انسان خدا کی یاد کو اختیار کرتا ہے تو ایک طرف قرآن مجید بار بار انسانی شعور کو خدا کی ذات، صفات اور اس کے حضور پیشی اور بندگی کے طریقوں کی یاددہانی کرتا ہے، دوسری طرف پنج وقتہ نماز انسان کو ہر پہر کے آغاز پر یاد دِلاتی ہے کہ وہ خدا کا بندہ ہے۔ جبکہ حضور کے اذکار اس کی پوری زندگی کا احاطہ اس طرح کرتے ہیں کہ ہر اہم موقع پر انسان خدا سے جڑا رہتا ہے۔ یاد الٰہی کا اس سے زیادہ قابل عمل اور مفید طریقہ کوئی انسان نہیں بتا سکتا۔
