سچی توبہ ۔ ابویحییٰ
سوال: مجھے یہ معلوم کرنا ہے کہ قرآن و حدیث کے مطابق اُس شخص کا معاملہ کیا ہوگا جس سے کوئی گناہ سر زد ہو اور وہ اُس سے سچی توبہ کرلے۔ اگر خدا اُس کا گناہ معاف کردیگا تو کیا پھر بھی روزِ قیامت یہ گناہ اُس کے اعمال میں شمار کیا جائیگا۔ اور وہ گناہ جو خدا کی طرف سے معاف کر دئے جاتے ہیں کیا وہ پھر بھی انسان کے برے کرتوتوں کی حیثیت سے اُسکے نامۂ اعمال میں شمار کئے جائینگے؟ (مریم)
جواب: اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سچی توبہ بہت بڑی چیز ہے۔ توبہ کرنے کے بعد عمل صالح اختیار کرنے والا شخص اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹ آتا ہے جس کے بعد نہ صرف اس کے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں بلکہ اس کے نامۂ اعمال سے برائیاں مٹ جاتی ہیں اور اس میں صرف بھلائیاں ہی رہ جاتی ہیں۔ اس بات کو قرآن کریم میں بعض بڑے جرائم کے ذکر کے بعد اس طرح بیان کیا گیا ہے:
’’اور جو نہ اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کوپکارتے اور نہ اس جان کو، جس کو اللہ نے حرام ٹھہرایا، بغیر کسی حق کے قتل کرتے اور نہ بدکاری کرتے۔ اور جو کوئی ان باتوں کا مرتکب ہوگا وہ اپنے گناہوں کے انجام سے دوچار ہوگا۔ قیامت کے دن اس کے عذاب میں درجہ بدرجہ اضافہ کیا جائے گا اور وہ اس میں خوار ہوکر ہمیشہ رہے گا۔ مگر وہ جو توبہ کرلیں گے، ایمان لائیں گے اورعمل صالح کریں گے تو اللہ ان کی برائیوں کو بھلائیوں سے بدل دے گا اور اللہ بڑا بخشنے والا، مہربان ہے۔ اور جو توبہ کرتا ہے اور عمل صالح اختیار کرتا ہے وہ درحقیقت اللہ کی طرف لوٹتا ہے۔‘‘(الفرقان25:68-71)
ایک دوسرے مقام پر نیکیوں کی یہ خصوصیت بیان ہوئی ہے کہ وہ برائیوں کو مٹا دیتی ہیں۔
’’اور نماز کا اہتمام کرو دن کے دونوں سروں پر اور کچھ رات گزرنے پر۔ بے شک نیکیاں برائیوں کو دور کر دیتی ہیں۔ یہ یاد دہانی ہے ان لوگوں کے لیے جو خدا کو یاد رکھنے والے ہیں۔‘‘(ھود11:114)
ان آیات کی بنا پر توبہ کرکے سچی خدا پرستی اختیار کرنے والوں کو یہ اطمینان رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن انھیں رسوا نہیں کریں گے اور ان کے نامۂ اعمال میں کوئی ایسی چیز نہ ہوگی جو مخلوق کے سامنے ان کی رسوائی کا سبب بن جائے۔