رزلٹ کارڈ ضروری یا تربیت کارڈ؟ ۔ یاسر پیرزادہ
ہم عجیب لوگ ہیں اور ہماری تربیت کا معیار بھی عجیب ہے، ہمارا شمار غالباً دنیا کی ان چند قوموں میں ہوتا ہے جس کے والدین کو اپنے بچوں کے مستقبل کے بارے میں شدید فکر لاحق رہتی ہے، ہماری خواہش ہوتی ہے کہ ہمارا بچہ بہترین درس گاہ میں تعلیم پائے، اسکالر شپ حاصل کرے، اے گریڈوں کے انبار لگا دے، اس کی قابلیت کی بنیاد پر غیر ملکی یونیورسٹیاں اسے ہاتھوں ہاتھ لیں اور جب وہ اپنی ڈگریاں جیب میں ڈال کر بازار میں نکلے تو مائیکرو سافٹ سے لے کر گوگل تک دنیا کی بہترین کمپنیاں اسے منہ مانگی تنخواہ پر اپنی طرف کھینچنے کی کوشش کریں۔ ۔ ۔ ان میں سے کوئی بھی خواہش ناجائز نہیں بلکہ سچ پوچھیں تو جو والدین اپنی اولاد سے محبت کرتے ہیں انہیں ایسا ہی سوچنا چاہئے، مگر کیا یہ کافی ہے؟ اس پلاننگ میں کہیں اخلاقیات، اقدار یا بلوغت کی عمر تک پہنچنے والے بچے بچیوں کی تربیت کا کوئی اشارہ ملتا ہے؟ کیا اپنے بچوں کو فلم دکھانے سے پہلے ہم اس کی PG ریٹنگ چیک کرتے ہیں، کیا ہمیں اس بات کی پروا ہوتی ہے کہ ہمارا بچہ گھنٹوں اکیلا کمرے میں بیٹھا کیا کرتا رہتا ہے، کیا اٹھارہ برس سے کم عمر بچوں کے لیے پرائیویسی ضروری ہوتی ہے، کیا کچی عمروں کے بچوں اور بچیوں کے پاس اپنا ذاتی ٹیبلٹ ہونا چاہئے جس میں ان کا اپنا فیس بک اکاؤنٹ ہو جس کا ان کے والدین کو کچھ علم نہ ہو، کیا ذاتی موبائل فون بچوں کے تحفظ کے لیے ناگزیر ہے یا اس کے بغیر کام چل سکتا ہے، کیا بچوں کو اجنبی لوگوں کے گھروں میں بھیجنا درست بات ہے، اور آزاد خیالی اپنی جگہ مگر یہ کہاں لکھا ہے کہ اٹھارہویں سالگرہ کا کیک کاٹتے ہی بچے بچیوں پر وہ تمام چیزیں حلال ہو جاتی ہیں جو ایک دن پہلے تک ان کے لیے شجر ممنوعہ تھیں؟
ہماری نظریں اپنے بچے کے رزلٹ کارڈ کا معائنہ تو بغور کرتی ہیں، نمبر کم آئیں تو اس کی سرزنش کی جاتی ہے، اسکول میں اساتذہ سے مل کر پریشانی کا اظہار کیا جاتا ہے، اپنا پیٹ کاٹ کر ٹیوشن رکھوائی جاتی ہے اور پھر بچے کے ذہن میں یہ بات نقش کروائی جاتی ہے کہ اگر ایف ایس سی میں نمبر نہ آئے تو سمجھو ساری زندگی ناکامی کا منہ دیکھتے رہو گے۔ ۔ ۔ مگر کتنے والدین ایسے ہیں جن کے نزدیک بچے کے رزلٹ کارڈ سے زیادہ ’’تربیت کارڈ‘‘ کی اہمیت ہے، کتنے ماں باپ کو پتہ ہوتا ہے کہ ان کا بچہ جن دوستوں میں اٹھتا بیٹھتا ہے ان کی حرکتیں کس قسم کی ہیں، دوستوں کے اس گروپ کی اسکول میں کیا ریپوٹیشن ہے! بچیوں کے معاملے میں تو اور بھی زیادہ احتیاط برتنے کی ضرورت ہے مگر کیا ہم وہ احتیاط برتتے ہیں، کیا ہمیں اس بات کا ادراک ہے کہ بچوں کی پرائیویسی ان کے لیے کس حد تک خطرناک ثابت ہو سکتی ہے، کیا بچوں کے معاملے میں آزادی کی حدود کا ہم نے تعین کر رکھا ہے، کیا بچوں کے لاڈ اٹھاتے اٹھاتے کہیں ہم ان کے مستقبل کا نقصان تو نہیں کر رہے؟ سوال زیادہ ہیں اور جواب کم!
تین قسم کے چیلنج ہیں جو آج کل کے والدین کو درپیش ہیں، پہلا طبقاتی کشمکش، جب بھی ہم اپنے بچوں کو کسی چیز سے باز رکھنے کی کوشش کرتے ہیں یا یہ کہہ کر منع کرتے ہیں کہ ابھی تم بچے ہو، بڑے ہو کر تمہیں اس کی اجازت ہوگی تو جواب میں بچہ کہتا ہے ’’مگر ہماری کلاس میں تو سب بچوں کے پاس موبائل فون ہیں، پھر آپ مجھے کیوں منع کرتے ہیں!‘‘ اس ’’دلیل‘‘ کا ایسا جواب دینا جو بچے کو مطمئن کر دے بے حد مشکل کام ہے، آپ لاکھ بچے کو سمجھائیں کہ باقی لوگ غلط کرتے ہیں، اتنی چھوٹی عمر میں بچوں کے پاس موبائل فون نہیں ہونا چاہئے مگر بچہ یہ بات ماننے کو تیار نہیں ہو گا، اسے لگے گا جیسے والدین اس کے ساتھ زیادتی کر رہے ہیں یا پھر ماں باپ کو اس پر اعتماد نہیں ہے، اور یہ رجحان صحت مند نہیں۔ دوسرا چیلنج، محنت کی کمی، زندگی کی دوڑ دھوپ میں والدین کو اس بات کا احساس ہی نہیں ہو پاتا کہ جتنی محنت وہ پیسہ کمانے کے لیے کرتے ہیں اس محنت کے کچھ حصے پر ان کے بچوں کا بھی حق ہے، والدین کا خیال ہوتا ہے کہ یہ محنت دراصل وہ اپنے بچوں کے لیے ہی کرتے ہیں جو کسی حد تک درست بھی ہے مگر بچوں کی پرورش اور تربیت اضافی محنت مانگتی ہے، والدین جو پہلے ہی تھک چکے ہوتے ہیں اس اضافی محنت کا بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں رہتے لہٰذا وہ خود کو یہ کہہ کر تسلی دیتے ہیں کہ ان کی پوری زندگی کا محور بچوں کا مستقبل ہے، جس کا مطلب کہ ان کی بہترین اسکولنگ ہے اور اس کو یقینی بنانے کے لیے وہ دن رات محنت کرتے ہیں، یہی بچوں سے ان کی محبت کا ثبوت ہے۔ یہ سائیکل یونہی چلتی رہتی ہے اور پھر ایک دن وہ اپنے بچوں کے ساتھ کوئی ’’ڈرٹی پکچر‘‘ دیکھ کر سینما ہال سے برآمد ہوتے ہیں۔ تیسرا چیلنج تیزی سے تبدیل ہوتا ہوا وقت، ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جو ہر آنے والے دن میں اپنے ساتھ ایسی حیران کن تبدیلیاں لے کر آتا ہے جو آج سے ہزار سال پہلے کئی دہائیوں میں بھی رونما نہیں ہوتی تھیں، مگر ہم میں سے کئی لوگ اب تک اس برق رفتار تبدیلی کا سامنا کرنے کے لیے تیار نہیں۔ بارہ چودہ سال کی بچی کے پاس ذاتی ٹیبلٹ، اس کا فیس بک اکاؤنٹ، اس کا ذاتی کمرہ، اس کی پرائیویسی، اپنی ہم جولیوں کے ساتھ اکیلے گھومنے جانا، آج سے بیس برس پہلے تک ان باتوں کا تصور نہیں تھا، مگر آج یہ سب کچھ ’’نارمل‘‘ لگتا ہے، ہم نے اس تبدیلی کو قبول تو کر لیا ہے کیونکہ ہمارے پاس اس کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں تھا مگر اس تبدیلی کے کیا مضمرات ہیں، اس کا ہمیں اندازہ نہیں ہو پا رہا۔
وقت کی کمی اور محنت سے جی چرانا، اپنے سے اونچے طبقے میں چھلانگ لگا کر پہنچنے کا خبط اور تیزی سے بدلتے ہوئے زمانے کے چیلنجوں نے ہمیں ایسا ادھ موا کر دیا ہے کہ ہم اپنے بچوں کے رزلٹ کارڈ سے آگے کچھ سوچ ہی نہیں پاتے۔ حالانکہ ان کی تربیت کا بھی ایک کارڈ ہونا چاہییے جس پر ہماری گہری نظر ہو، ہمیں علم ہو کہ ہمارے بچے بچیاں کس ڈگر پر چل رہے ہیں، کیا سوچتے ہیں، ان کے دوست کیسے ہیں، کیا وہ اپنی پرائیویسی پر اصرار کرتے ہیں، اگر ایسا ہے تو کیوں ہے؟ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ان کی تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کی تربیت بھی اے گریڈ ہو تو ہمیں ان کو وقت دینا ہوگا، ان کے ساتھ محنت کرنی ہوگی، اپنے آرام کی قربانی دینا ہوگی اور آج کل کے نت نئے gadgets اور ان کے مضمرات سے مکمل طور پر آگاہ رہنا ہو گا تاکہ اپنے بچوں سے بات چیت کے دوران ہم انہیں ان کی زبان میں قائل کر سکیں اور انہیں یہ نہ لگے کہ ان کے والدین outdated ہو چکے ہیں جنہیں یہ نہیں پتہ کہ فیس بک پر پکچر ٹیگنگ کس بلا کا نام ہے!