رمضان اور رنگین عینک ۔ ابویحییٰ
رمضان سے قبل یہ عارف کی آخری نشست تھی۔ لوگ بڑی توجہ سے ان کی قیمتی باتیں سن رہے تھے۔ گفتگو کا موضوع یہی تھا کہ رمضان سے زیادہ سے زیادہ فائدہ کس طرح اٹھایا جائے۔ نشست ختم ہونے لگی تو عارف نے کہا:
’’میں آخر میں رمضان کے روزوں سے ملنے والا سب سے بڑا سبق آپ کو بتانا چاہتا ہوں۔‘‘
ہر شخص ان کی بات سننے کے لیے پوری طرح متوجہ ہوگیا۔
’’دیکھیے رمضان میں ہم وہ کچھ کرتے ہیں جن کا عام حالات میں شاید سوچ بھی نہیں سکتے۔ ہمیں وقت پر کھانا نہ ملے تو گھر میں ہنگامہ کر دیتے ہیں۔ پانی نہ پینے اور اس کے لیے شام تک کا انتظار کرنے کا تو کوئی سوال ہی نہیں ۔عام طور پر نیکی سے بہت دور رہنے والے نوجوان بھی اپنی نوبیاہتا بیوی کی موجودگی میں بھی ایسے بن جاتے ہیں جیسے کمرے میں وہ دونوں تنہا نہیں بلکہ پوری مجلس جمی ہوئی ہو۔ یہ سب روزے کی برکات ہیں۔ مگر کیا آپ نے کبھی سوچا کہ یہ برکت حاصل کیسے ہوتی ہے؟‘‘
لوگ خاموش رہے۔ وہ اس بات کا جواب عارف ہی کے منہ سے سننا چاہتے تھے۔ مگر انھوں نے اپنے سوال کا جواب دینے کے بجائے ایک سوال اور کر دیا۔
’’شدید دھوپ کے موسم میں آپ لوگ کبھی گہرے رنگ کا چشمہ لگا کر گھر سے نکلے ہیں؟‘‘
کئی لوگوں نے بیک وقت بلند آواز سے ہاں کہا۔
’’اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟‘‘، عارف نے پھر پوچھا۔
’’موسم کی شدت کم ہوجاتی ہے۔ منظر اچھا نظر آنے لگتا ہے۔ آنکھوں پر دباؤ کم ہوجاتا ہے۔ دھوپ کا اثر کم محسوس ہوتا ہے۔ دماغ گرمی کم محسوس کرتا ہے اس لیے جسمانی نظام کم پسینہ خارج کرتا ہے۔ ہر چیز اچھی محسوس ہوتی ہے۔‘‘
بہت سارے جوابات تھے جو لوگوں نے اپنے اپنے تجربے کے مطابق دیے۔
’’آپ میں سے ہر شخص نے بالکل ٹھیک کہا۔ عین دوپہر اور سخت گرمی کے وقت بھی جب آپ کے خارج کی دنیا اور جسم کے اندر ہر جگہ گرمی، تپش اور دھوپ کے اثرات چھائے ہوئے ہوتے ہیں، آنکھوں پر لگا ہوا رنگین چشمہ ان اثرات کو بڑی حد تک غیرموثر کر دیتا ہے۔ یہی انسانی نفسیات ہے۔ یہی نفسیات روزے میں کام کرتی ہے اور انسان کو بھوک، پیاس اور دیگر بنیادی جبلتوں پر قابو پانے کی صلاحیت دیتی ہے۔‘‘
’’مگر روزے میں تو ہم کوئی رنگین چشمہ نہیں پہنتے؟‘‘، ایک صاحب نے لقمہ دیا۔
’’بالکل پہنتے ہیں۔ یہ چشمہ صبر اور امید کے رنگوں سے مرکب ہوتا ہے۔ امید اس بات کی کہ بس افطار تک کی ہی تو بات ہے۔ اور صبر اس چیز پر کہ اس روزے کا اجر اللہ کے ہاں بہت زیادہ ہے۔ اس اجر کے لیے ہم سب اپنی ضرویات سے رکتے، مشقت جھیلتے اور خواہش پر قابو پالیتے ہیں۔ اور امید رکھتے ہیں کہ چند گھنٹوں بعد پیاس ٹھنڈک سے اور بھوک سیری سے بدل جائے گی۔‘‘
’’تو اس میں سبق کیا ہے؟‘‘، ایک اور صاحب نے سوال کیا تو عارف بولے۔
’’یہی سبق ہے۔ یہ صبر اور امید کا رنگین چشمہ اصل سبق ہے۔ جو لوگ یہ دو رنگا چشمہ مستقل طور پر لگانا شروع کر دیتے ہیں ان کے لیے زندگی کی ہر آزمائش کو جھیلنا، ہر ناگواری کو سہنا اور رب کی ہر نافرمانی سے رکنا آسان ہوجاتا ہے۔ اس امید پر کہ بس تھوڑی مدت کی بات ہے پھر ختم نہ ہونے والا اجر ہے۔ اس امید پر کہ آخرت کا اجر جب ملے گا تو زندگی کی ہر تلخی کو بھلا کر رکھ دے گا، انسان صبر کرتا ہے اور یہ صبر زندگی کوتلخ ہونے سے بچا لیتا ہے۔ سو اس رمضان میں جب روزے میں بحالت مجبوری صبر اور امید کا چشمہ لگائیں تو یہ عزم کر لیں کہ باقی گیارہ مہینے بھی یہی رنگین چشمہ لگا کر زندگی کی تلخی کو حوصلے سے پینا ہے۔ اس امید پر کہ جنت کی منزل زیادہ دور نہیں ہے۔‘‘
عارف کی نشست تمام ہوئی۔ روزے کا ایک نیا سبق ہر سامع نے سیکھ لیا۔