بندگی کا روزہ ۔ ابویحییٰ
بھوک کی اذیت بھی بہت سخت ہوتی ہے۔ مگر گرمی کے طویل روزے میں پیاس کی اذیت بھوک کی تکلیف کو بھلا چکی ہے۔ پیاس سے گلا خشک ہوچکا ہے۔ منہ سوکھ چکا ہے۔ جسم نڈھال ہوچکا ہے۔ مگر آپ کبھی پانی کا ایک قطرہ بھی نہیں پئیں گے۔ اس لیے کہ روزہ ٹوٹ جائے گا۔ یہ روزہ ہے۔ یہ اس کی عظمت ہے جس کی بنا پر ہم اتنی مشقت جھیلتے اور اس قدر تکلیف اٹھاتے ہیں۔
مگر دوسری طرف ہم سب ایک اور روزہ رکھے ہوئے ہیں۔ یہ بندگی کا روزہ ہے۔ یہ روزہ خدا کی ہر نافرمانی کے ساتھ ٹوٹ جاتا ہے۔ مگر ہمیں اس روزے کے ٹوٹنے کا کوئی افسوس نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ ہمیں اس روزے کے ٹوٹنے کا کوئی احساس بھی نہیں ہوتا۔ ہم بندگی کا روزہ ہر روز توڑتے ہیں۔ حتیٰ کہ عین روزے کے عالم میں بھی توڑتے ہیں۔ مگر ہمارا ہر احساس اس سنگین جرم کو سمجھنے کے لیے مردہ بنا رہتا ہے۔ اس لیے کہ ہم نے اس جرم کو کبھی جرم ہی نہیں سمجھا۔
جس وقت ہم فواحش سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ حرام کھاتے اور کماتے ہیں۔ لوگوں کے ساتھ ظلم کرتے، انھیں دھوکہ دیتے اور ان کا مال دباتے ہیں، بندگی کا یہ روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔
جس وقت ہم جھوٹ بولتے ہیں اور جھوٹ پھیلاتے ہیں۔ جس وقت ہم غیبت کر کے کسی کو رسوا کرتے ہیں۔ جس وقت ہم الزام و بہتان لگا کر کسی کو بدنام کرتے ہیں۔ بندگی کا یہ روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔
جس وقت ہم اپنی خواہشات کو دین بنا لیتے ہیں۔ جس وقت ہم اپنے تعصبات کی بنا پر سچائی کو رد کر دیتے ہیں۔ جس وقت ہم عدل و انصاف کے تقاضوں کو پامال کرتے ہیں۔ بندگی کا یہ روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔
کتنے روزہ دار ہیں جو بندگی کا روزہ ہر روز توڑتے ہیں۔ کتنا عجیب ہے ان کا روزہ رکھنا۔ کتنا عجیب ہے ان کا رمضان کی مشقت جھیلنا۔