قیامت اور نجات ۔ ابویحییٰ
محترم کامران میر صاحب 31/07/08
السلام علیکم
آپ کی یہ بات بالکل درست ہے کہ یہودیوں کی طرح مسلمانوں میں بھی یہ بات عام ہوچکی ہے کہ وہ چند دن کے لیے جہنم میں جائیں گے اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ انھیں جہنم سے نکال لیں گے۔ قرآن کریم اس بات سے بالکل خالی ہے کہ اللہ تعالیٰ روزِ قیامت نام نہاد مسلمانوں کو ایسی کسی خصوصی رعایت سے نوازے گا۔ قیامت عدل کا دن ہے۔ اس روز سارے فیصلے عدل کے مطابق ہوں گے۔ ہاں اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی کریم و رحیم ہستی کی رحمت کا ظہور بھی ہوگا۔ قرآن کریم نے سزا و جزا کے قانون کو جس طرح بیان کیا ہے اس کو قدرے تفصیل کے ساتھ نکات کی شکل میں ہم ذیل میں بیان کیے دیتے ہیں:
۱) حق کے واضح ہو جانے کے بعد جو لوگ تکبر اور سرکشی کا مظاہرہ کریں ان کا انجام ابدی جہنم ہے۔ یہ لوگ چاہے اللہ کی کتاب اور اس کے پیغام کے حاملین ہوں یا شرک کو اپنا دین قرار دیتے ہوں، اگر حق ان پر واضح ہوا اور محض اپنی سرکشی کی بنا پر یہ کفر میں مبتلا ہوئے اور حق کی مخالفت اور عناد پر آمادہ ہوگئے تو ان کا انجام ابدی جہنم ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’کیا انہیں علم نہیں کہ جو اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرے گا اس کے لیے جہنم کی آگ ہے، جس میں وہ ہمیشہ رہے گا، یہ بہت بڑی رسوائی ہے۔‘‘(توبہ 63:9)
’’بے شک اہل کتاب اور مشرکین میں سے جنہوں نے کفر کیا وہ دوزخ کی آگ میں پڑیں گے، اسی میں ہمیشہ رہنے کے لیے۔ یہی لوگ بدترین خلائق ہیں۔‘‘ (البینہ6:98)
’’ذرا ان کو تو دیکھو جو اللہ کی آیت کے باب میں کٹ حجتی کرتے ہیں، وہ کہاں پھیر دیے جاتے ہیں! جنہوں نے اللہ کی کتاب کو جھٹلایا اور ان چیزوں کو بھی جن کے ساتھ ہم نے اپنے رسولوں کو بھیجا۔ پس وہ عنقریب جانیں گے! جبکہ ان کی گردنوں میں طوق ہوں گے اور(ان کے پاؤں میں) زنجیریں ہوں گی۔ وہ گرم پانی میں گھسیٹے جائیں گے، پھر آگ میں جھونک دیے جائیں گے۔ پھر ان سے پوچھا جائے گا: کہاں ہیں وہ جن کو تم اللہ کے سوا شریک ٹھہراتے تھے؟ وہ کہیں گے: وہ سب ہم سے کھوئے گئے، بلکہ پہلے ہم کسی چیز کو بھی نہیں پوجتے رہے۔ اس طرح اللہ کافروں کے حواس گم کر دے گا۔ یہ اس سبب سے کہ تم زمین میں ناحق اتراتے اور اکڑتے رہے۔ جہنم کے دروازوں میں داخل ہو، اس میں ہمیشہ رہنے کے لیے! کیا ہی برا ٹھکانا ہے متکبروں کا!‘‘(مومن69-76:40)
’’اور جن لوگوں نے کفر کیا ہوگا وہ گروہ در گروہ جہنم کی طرف ہانک کر لے جائے جائیں گے۔ یہاں تک کہ جب وہ اس کے پاس حاضر ہوں گے اس کے دروازے کھول دیے جائیں گے اور اس کے داروغے ان سے پوچھیں گے کہ کیات مھارے پاس، تمہی میں سے رسول، تمھارے رب کی آیتیں سناتے اور تمھارے اس دن کی ملاقات سے ڈراتے نہیں آئے؟ (وہ کہیں گے: ہاں!) آئے تو سہی! پر کافروں پر کلمۂ عذاب پورا ہوکر رہا۔ کہا جائے گا کہ جہنم کے دروازے میں داخل ہوجاؤ، اس میں ہمیشہ رہنے کے لیے! پس کیا ہی برا ٹھکانا ہے متکبروں کا!‘‘(زمر 71-72:39)
ان لوگوں کی سزا کا ایک پہلو یہ ہے کہ ان کے اعمال چاہے کتنے ہی اچھے کیوں نہ ہوں، برباد کردیے جائیں گے۔
’’ان لوگوں کے اعمال کی تمثیل، جنہوں نے اپنے رب کے ساتھ کفر کیا، یہ ہے کہ جیسے راکھ ہو جس پر آندھی کے دن باد تند چل جائے۔ جو کچھ انہوں نے کمائی کی ہوگی اس میں سے کچھ بھی ان کے پلے نہیں پڑے گی۔ یہی دور کی گمراہی ہے۔‘‘(ابراہیم18:14)
’’مشرکین کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ مساجد الہٰی کا انتظام کریں درآنحالیکہ وہ خود اپنے کفر کے گواہ ہیں۔ ان لوگوں کے سارے اعمال ڈھے گئے اور دوزخ میں ہمیشہ رہنے والے تو یہی ہیں۔‘‘(توبہ17:9)
اس گروہ کا سرخیل خود ابلیس ملعون ہے۔ اس نے بھی تکبر کیا اور انجام یہ ہوا کہ اللہ کی لعنت اور جہنم دونوں کا مستحق ہوا۔
’’تو تمام فرشتوں نے اس کو سجدہ کیا بجز ابلیس کے۔ اس نے گھمنڈ کیا اور انکار کرنے والوں میں سے بن گیا ۔پوچھا: اے ابلیس! اس کو سجدہ کرنے سے تجھے کیا چیز مانع ہوئی جو میں نے اپنے ہاتھوں سے پیدا کی؟ یہ تو نے تکبر کیا یا تو کوئی برتر ہستی ہے؟ اس نے جواب دیا: میں اس سے برتر ہوں۔ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور اس کو مٹی سے پیدا کیا، حکم ہوا: تو یہاں سے نکل! کیونکہ تو راندۂ درگاہ ہوا اور تجھ پر میری لعنت ہے، جزا کے دن تک!اس نے کہا: اے میرے رب! مجھے مہلت دے اس دن تک کے لیے جس دن لوگ اٹھائے جائیں گے ارشاد ہوا: تجھ کو مہلت دی گئی! وقت معین تک کے لیے! اس نے کہا: تیری عظمت کی قسم! میں ان سب کو گمراہ کرکے رہوں گا بجز تیرے ان بندوں کے جن کو تو نے ان میں سے خاص کرلیا ہو۔ ارشاد ہوا: پس حق یہ ہے! اور میں حق ہی کہتا ہوں! کہ میں تجھ سے اور ان تمام لوگوں سے، جو ان میں سے تیری پیروی کریں گے، جہنم کو بھردوں گا!‘‘(ص73-85:38)
۲) دوسرا گروہ ان لوگوں کا ہے جو بظاہر متکبر، سرکش اور مخالفِ حق نہیں ہوتے۔ مگر یہ وہ لوگ ہیں جو غفلت میں مبتلا ہوکر معصیت کو اپنا شعار بنا لیتے ہیں اور گناہ ان کی زندگی کا احاطہ کرلیتا ہے، ان لوگوں کاا نجام بھی ابدی جہنم ہے۔ عین ممکن ہے کہ یہ لوگ مسلمان بھی ہوں، زبان سے اللہ رسول اور نیکی کا نام بھی لیتے ہوں۔ تاہم اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا، اپنے زمانے کی مسلمان قوم یہود کو مخاطب ہوکر اللہ تعالیٰ نے یہی پیغام دیا تھا۔
’’اور وہ کہتے ہیں کہ ان کو دوزخ کی آگ نہیں چھوئے گی مگر صرف گنتی کے چند دن۔ پوچھو: کیا تم نے اللہ کے پاس اس کے لیے کوئی عہد کرا لیا ہے کہ اللہ اپنے عہد کی خلاف ورزی نہیں کرے گا یا تم اللہ پر ایک ایسی تہمت باندھ رہے ہو جس کے بارے میں تمھیں کچھ علم نہیں۔ کیوں نہیں، جس نے کوئی بدی کمائی اور اس کے گناہ نے اسے اپنے گھیرے میں لے لیا وہی لوگ دوزخ والے ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔‘‘(البقرہ 80-81:2)
۳) یہ افراد اور ان کے مستقل رویوں کا معاملہ تھا۔ یعنی تکبر، سرکشی، غفلت و معصیت وغیرہ۔ مگر کچھ جرائم ایسے بھی ہیں جو اپنی ذات میں اتنے بڑے ہیں کہ ان کا ارتکاب کرنے والے کی سزا ابدی جہنم مقرر کی گئی ہے۔ مثلاً وراثت کے احکام دینے کے بعد یہ بیان کیا گیا ہے کہ جو ان حدود کی خلاف ورزی کرے گا اس کی سزا ابدی جہنم ہے۔
’’یہ اللہ کی ٹھہرائی ہوئی حدیں ہیں۔ اور جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے رہیں گے اللہ ان کو ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن میں نہریں جاری ہوں گی، ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور یہ بڑی کامیابی ہے اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کریں گے اور اس کی مقرر کردہ حدود سے تجاوز کریں گے، ان کو ایسی آگ میں داخل کرے گا جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور ان کے لیے ذلیل کرنے والا عذاب ہے‘‘، (نساء13-14:4)
اسی طرح قتلِ مومن کی سزا بھی ابدی جہنم بیان ہوئی ہے،(نساء93:4)۔ ایک اور مقام پر (فرقان68-69:25) قتلِ ناحق، زنا اور شرک کی سزا بھی یہی بیان ہوئی ہے۔
۴) یہ تینوں گروہ باالیقین ابدی طور پر جہنم میں جائیں گے البتہ قرآن میں ایک اشارہ ایسا موجود ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ معافی کا ایک امکان موجود ہے۔ مگر اس معافی کا امکان صرف اور صرف ان لوگوں کے لیے ہے جو اللہ تعالیٰ کی توحید کو دل سے مانتے ہوں گے۔ سورہ نساء میں دو جگہ ایک ہی بات اس طرح بیان ہوئی ہے۔
’’بے شک اللہ تعالیٰ اس چیز کو نہیں بخشے گا کہ اس کا شریک ٹھہرایا جائے، اس کے سوا جو کچھ ہے، جس کے لیے چاہے گا بخش دے گا۔‘‘ (النساء48,116:4)
محسوس یہ ہوتا ہے کہ اوپر بیان کردہ تین گروہوں میں سے پہلے دو گروہ معافی کے اس امکان سے بالکل خارج ہیں۔ اس لیے کہ تکبر اور حق کی مخالفت انسان کو خود اللہ تعالیٰ کے بالمقابل کھڑا کر دیتی ہے۔ اسی طرح گناہ جب زندگی کا احاطہ کرلیں اور غفلت و معصیت میں شب و روز گزرنے لگیں تو خدا کو ماننا اور نہ ماننا برابر ہوجاتا ہے۔ ایسے لوگوں میں نہ کبھی احساسِ بندگی پیدا ہوتا ہے اور نہ احساسِ شرمندگی۔ البتہ اس کا ایک امکان ہے کہ تیسرے گروہ کے وہ لوگ جن سے ایسے بڑے جرائم کا ارتکاب ہوا ہو جن کی سزا ابدی جہنم ہے، ان میں سے کچھ کو خدا خوفی کا کوئی احساس پیدا ہوجائے۔ اور اس کے بعد کچھ اور نہ سہی وہ کم از کم گناہ کو بار بار کرنے سے سے باز آجائیں۔
تیسرے گروہ کے ہر فرد کو نہیں بلکہ ان میں سے وہ لوگ جن کو یہ احساس پیدا ہوا اور وہ گناہ سے باز آگئے، ان کو جرائم کی سزا تو بہرحال ملے گی۔ کیونکہ ان کا احساسِ ندامت اتنا شدید نہ تھا کہ توبہ اور ندامت کی اُن کیفیات میں ڈھل جاتا جس کے بعد آدمی کی زندگی بدل جاتی ہے اور وہ ہر غلطی کا ازالہ کرنے کی بھرپور کوشش کرتا ہے۔ چنانچہ یہ اللہ تعالیٰ کے عدل کا تقاضا ہے کہ وہ جہنم میں جائیں اور اپنے جرائم کی پاداش میں وہاں سزا بھگتیں۔ تاہم ان لوگوں میں سے کسی کے دل میں اگر توحید سے وابستگی کا جذبہ ہوا تو اللہ تعالیٰ کی رحمت ایسے لوگوں کو سورہ نساء کی آیت کے تحت آخر کار معاف کر دے گی۔ معافی کی یہ بات متعدد صحیح احادیث میں بیان ہوئی ہے۔ مثلاً ایک روایت کے الفاظ اس طرح ہیں:
’’حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بہت سی جماعتیں اپنے گناہوں کی وجہ سے آگ کا عذاب بھگت کر سیاہ ہوجائیں گی۔ پھر اللہ تعالیٰ ان کو اپنی رحمت سے جنت میں داخل کر دے گا۔ ان لوگوں کو جہنمی کہا جائے گا۔‘‘(بخاری ،رقم7012)
ہم نے جو کچھ بیان کیا ہے اس میں کسی مجرم، کسی غافل، کسی متکبر اور سرکش کے لیے کوئی خوش خبری نہیں۔ جس معافی کا امکان بیان کیا گیا ہے وہ ہرشخص کے لیے نہیں، نہ ہر گناہ کے لیے ہے۔ مسلمانوں کے لیے محفوظ راستہ یہ ہے کہ وہ قرآن کریم کی ایمان و عملِ صالح کی دعوت کو اختیار کریں۔ اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتے رہیں۔ کسی بڑے جرم کا غلطی سے کبھی ارتکاب ہوجائے تو فوراً توبہ کرکے اصلاح کا راستہ اختیار کریں۔ یہ قیامت کے دن نجات کا واحد ممکنہ راستہ ہے۔ اس کے علاوہ ہر راستہ اللہ تعالیٰ کی گرفت کی سولی پر لٹکنے کے مترادف ہے۔ جو بدنصیب اس سولی پر ایک دفعہ آگیا، اس کے لیے پھر کوئی خیر نہیں بچے گا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس انجام سے محفوظ فرمائے۔