روحانیت کی تلاش ۔ ابویحییٰ
پچھلے دنوں میری ایک صاحب سے ملاقات ہوئی۔ یہ صاحب ایک کامیاب کاروبار چلا رہے تھے۔ دورانِ گفتگو انہوں نے مجھ سے دریافت کیا کہ کیا آپ مزاروں کے قائل ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ کسی قبر پر جاکر اگر مشرکانہ حرکتیں نہ کی جائیں تو مجھے اعتراض نہیں۔ پھر میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کس مقصد کے لیے مزاروں پر جاتے ہیں۔ کہنے لگے کہ میں سکون حاصل کرنے کے لیے مزاروں پر جاتا ہوں۔
یہ محض ایک فرد کا واقعہ نہیں بلکہ آج کے دور میں پائے جانے والے اس خلا کو بیان کرتا ہے جو مادیت کی دوڑ نے ہر انسان میں پیدا کر دیا ہے۔ آج کے انسان پر ہوش سنبھالتے ہی مادی خواہشات کی ایسی یلغار ہوتی ہے کہ وہ لامحالہ اس دوڑ میں شامل ہوجاتا ہے۔ پیٹ و جنس کے تقاضوں سے شروع ہونے والی یہ دوڑ معیارِ زندگی اور اسٹیٹس بلند کرنے کی لامحدود تگ و دو تک جاری رہتی ہے۔ اس دوڑ میں انسان کبھی ہانپنے لگتا ہے اور کبھی ٹھوکر کھا کے گر جاتا ہے۔ بہت سے لوگ اپنے مقرر کردہ مادی اہداف کو پالینے میں کامیاب بھی ہوجاتے ہیں۔ ان تمام صورتوں میں ان کے اندر کا روحانی وجود، جو مادی دوڑ میں کچھ دب سا جاتا ہے، بار بار اُبھر کر اپنے تقاضے سامنے رکھتا رہتا ہے۔
چنانچہ لوگ مادیت سے اٹ جانے کے بعد ایک روحانی غسل لینے کے لیے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ یوں روحانیت کا کاروبار چمک اٹھتا ہے۔ ان دوکانوں پر اکثر جھوٹا سودا فروخت ہوتا ہے۔ مگر لوگ جھوٹ و سچ سے بے پرواہ ہوکر اپنی روحانی طلب کا جواب چاہتے ہیں۔ یہ اگر کہیں مل رہا ہو تو وہ قرآن کی کسوٹی اور عقلی پیمانوں پر اس کی جانچ میں اپنا وقت ضائع نہیں کرتے۔
دنیا بھر کے انسان اگر یہ کریں تو ان کی حالت پر اتنا افسوس نہیں ہوتا جتنا مسلمانوں کی حالت پر ہوتا ہے۔ اس لیے کہ اس وقت وہ دنیا کا واحد گروہ ہیں جس کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا لایا ہوا مستند دین، آپ کی شخصیت اور اللہ کی کتاب من وعن موجود ہے۔ یہ سب مل کر اسلام کی روحانیت کا حقیقی تصور ہمیں دیتے ہیں۔ ان سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کی روحانیت اللہ والا بن کر جینا ہے (79:3)۔ یا بن دیکھے اسے مان لینا ہے(3:2) اس کی بندگی کے رنگ میں رنگ جانا ہے (138:2)۔ اٹھتے، بیٹھتے اور کروٹوں پر اسے یاد کرنا ہے(191:3)۔ اس کی یاد کو دل کا چین بنا لینا ہے۔(28:13)۔
اسلام کی روحانیت عقلی روحانیت ہے جو چلّوں اور مراقبوں سے نہیں بلکہ کائنات پر غور و فکر کر کے خدا، جنت اور جہنم کے غیبی حقائق کی معرفت سے حاصل ہوتی ہے۔(191:3)۔ یہ قطرے کا سمندر میں گرنا نہیں بلکہ بندہ کا سجدے میں رب کا قرب حاصل کرنا ہے۔(19:96)۔ یہ مصائب میں کسی بزرگ سے فریاد کرنا نہیں بلکہ گڑگڑا کر اور چپکے چپکے اپنے رب کو پکارنا ہے (الاعراف:55)۔ خیر و شر کی جدو جہد سے بے نیازی کا نام نہیں, دعوتی عمل میں صبر اور اعلیٰ اخلاق پر جمے رہنے کا نام ہے۔(4:68)
ہماری یہ باتیں یقیناََ بہت سے لوگوں کے لیے بالکل اجنبی ہوں گی۔ اس لیے کہ آج کے دور میں روحانیت کا مطلب کچھ اور ہی ہے۔ مگر یہ ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جو دین ہم تک پہنچا ہے اس میں روحانیت کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں ہوتا جو ہم نے بیان کیا ہے۔ یہ وہ سچی روحانیت ہے کہ جس کو ایک دفعہ اس کا ذائقہ معلوم ہوجائے وہ مرجائے گا مگر کبھی اس کے خلاف نہیں جائے گا۔یہ وہ مزہ ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں پر ورم آجاتا تھا مگر آپ رات بھر رب کے حضور کھڑے رہتے تھے۔ یہ وہ روحانیت ہے جس میں انسان فرشتوں کی معیت میں جیتا ہے۔ جس میں انسان عقل کی آنکھ سے جنت اور جہنم کی وادیوں کو دیکھ لیتا ہے۔ جس میں انسان انسانوں میں رہتا ہے مگر درحقیقت وہ آسمان و زمین کے بادشاہ کا درباری اور اسی کا بھکاری ہوتا ہے۔ اور جو اس ان داتا کی حضوری میں جیتا ہے اس کی زندگی میں کوئی غم نہیں آسکتا۔ کوئی حزن نہیں آسکتا۔ کوئی مایوسی نہیں آسکتی۔ کوئی پچھتاوا نہیں آسکتا۔ کوئی محرومی نہیں آسکتی۔ کوئی اندیشہ نہیں آسکتا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر روحانیت کسی میں نہیں ہوسکتی۔ آپ کی روحانیت کا طریقہ وہ نہیں جو آج اختیار کرلیا گیا ہے۔ آپ کی روحانیت وہ ہے جو قرآن و حدیث میں بیان ہوئی ہے۔ یہی روحانیت سچی روحانیت ہے۔ یہی وہ روحانیت ہے جو آج کے انسان کی تلاش کا سچا جواب ہے۔