قرآن پڑھنے کا طریقہ ۔ ابویحییٰ
رمضان کے بعد عارف کی یہ پہلی مجلس تھی۔ دوران گفتگو انھوں نے سامعین سے پوچھا کہ آپ لوگوں نے رمضان میں قرآن سے کیسے تعلق پیدا کیا؟ اس پر لوگوں نے جواب دینے شروع کیے۔ قرآن کی تلاوت، ترجمہ و تفسیر پڑھنے سے لے کر دروس قرآن، تراویح اور دورہ قرآن تک لوگوں نے رمضان کی اپنی ہر مصروفیت گنوا دی۔
لوگ خاموش ہوئے تو عارف نے سوال کیا۔ آپ میں سے کسی نے کلام الٰہی کو رب کائنات سے مکالمے کا ذریعہ بھی بنایا؟ ان کے سوال پر ایک صاحب نے دریافت کیا۔ یہ مکالمہ کیسے کیا جاتا ہے؟ عارف نے انھی سے پوچھ لیا۔ قرآن مجید کی کوئی آیت سنائیے جو آپ کے نزدیک سب سے زیادہ اہم ہو۔ انھوں نے جواب میں آیت الکرسی سنا دی۔
وہ خاموش ہوئے تو عارف نے کہا۔ ایسے نہیں۔۔۔ ایک ایک جملہ ٹھہر ٹھہر کر پڑھیے۔ میں ہر جملے کے بعد بتاؤں گا کہ کلام الٰہی کو مکالمہ الٰہی کا ذریعہ کیسے بنایا جاتا ہے۔ ان صاحب نے دوبارہ پڑھنا شروع کیا۔ اللّٰہُ لا آإِلٰہَ إِلاَّ ہُو۔ عارف نے اسی جگہ انھیں روک کر کہا۔ اللہ کہہ رہا ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ بندے کو جواب میں کہنا چاہیے کہ پروردگار میری عبادت بھی صرف تیرے لیے ہے۔ میری بندگی، میری دعا، میری پرستش، میری ہر نذر اور عبادت تنہا تیرے لیے ہے۔
ان صاحب نے آگے پڑھا۔ اَلْحَیُّ الْقَیُّومُ۔ وہ اتنا ہی کہہ کر خاموش ہوگئے کیونکہ وہ سمجھ گئے تھے کہ عارف کس طرح قرآن پڑھنے کا کہہ رہے ہیں۔ عارف نے تحسین میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔ صرف وہی زندہ ہے۔ صرف وہی ہے جو خود سے قائم ہے۔ ہماری زندگی اور ہمارا وجود تو اس کی عطا سے ہے۔ سو بندے کو کہنا چاہیے کہ آقا تیری عطا کردہ زندگی کا شکریہ۔ زندگی باقی رکھنے کا شکریہ۔ ان صاحب نے آگے کہا۔ لاَ تَأْخُذُہٗ سِنَۃٌ وَلاَ نَوْم۔ عارف نے کہا۔ اونگھ بھی کمزوری ہے اور نیند بھی کمزوری ہے۔ میرے رب تو پاک ہے؛ ہر کمزوری سے، ہر ضرورت سے۔ ہر عجز سے، ہر غفلت سے۔ ان صاحب نے مزید پڑھا۔ لَہٗ مَا فِیْ السَّمَاوَاتِ وَمَا فِیْ الأَرْضِ۔ عارف نے جواب دیا۔ اسی کی ملک ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے۔ جب وہی بادشاہ ہے، جب سب اسی کی مِلک ہے تو پھر حکم بھی اسی کا مانا جائے گا۔ مالک میں بھی تیرا غلام ہوں۔ مجھ پر تیرا ہی حکم چلتا ہے۔ تیرا ہرلفظ میرے لیے آخری حکم کا درجہ رکھتا ہے۔
یہ کہتے ہوئے عارف کی آواز بھرا گئی۔ مگر فوراً انھوں نے اپنا لہجہ سنبھالتے ہوئے کہا: آگے پڑھیے۔ ان صاحب نے پڑھا۔ مَن ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَہٗ إِلاَّ بِإِذْنِہٖ یَعْلَمُ مَا بَیْْنَ أَیْْدِیْہِمْ وَمَا خَلْفَہُمْ وَلاَ یُحِیْطُونَ بِشَیْْءٍ مِّنْ عِلْمِہٖٓ إِلاَّ بِمَا شَآء۔ وہ خاموش ہوئے تو عارف نے کہا۔ علم بھی اسی کا ہے اور اذن بھی اسی کا ہے تو فیصلہ اور مرضی کسی اور کی کیسے ہوسکتی ہے؟ فیصلے کا حق بھی تنہا اسی کو حاصل ہے۔ کس کی مجال ہے کہ اس کے فیصلے کی بیچ میں بول سکے۔ پھر خود ہی بولے۔ وَسِعَ کُرْسِیُّہُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ وَلاَ یَؤُوْدُہٗ حِفْظُہُمَا وَہُوَ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ ۔بے شک اس کا اقتدار زمین سے آسمانوں تک پھیلا ہوا ہے اور ان کی نگہبانی اسے ذرہ برابر مشکل نہیں۔ اس بات کے جواب میں بندے کو جو کہنا چاہیے وہ اللہ نے خود ہی بتا دیا ہے۔ یعنی بندے کو کہنا چاہیے کہ مالک تیرا یہ بے پناہ اقتدار تیری علو شان اور کبریائی کا بیان ہے اور تیری یہ ان تھک نگرانی تیری اس انتہائی طاقت کا بیان ہے جس تک کوئی عظمت نہیں پہنچ سکتی۔
جب آپ قرآن اس طرح پڑھیں گے تو یہ پروردگار سے ایک زندہ مکالمہ بن جائے گا۔ پھر فرشتوں میں دوڑ لگ جائے گی کہ کون آپ کے الفاظ کو لپکتا اور مالک کائنات کے حضور پیش کرتا ہے۔ قرآن کو ایسے پڑھنا سیکھ لیں۔ آپ خود کو خدا کی حضوری میں پائیں گے۔
عارف کی محفل ختم ہوگئی مگر آج لوگوں نے قرآن پڑھنے کا طریقہ سیکھ لیا۔