بے خوفی کی نفسیات ۔ ابویحییٰ
قرآن مجید کی ابتدائی سورتوں میں اللہ تعالیٰ نے زیادہ تر اہل کتاب یعنی یہود و نصاریٰ سے خطاب کیا ہے۔ اس خطاب میں جو حکم سب سے زیادہ دہرایا گیا ہے وہ ایک ہی ہے۔ اللہ سے ڈرو اور اس کا تقویٰ اختیار کرو۔
اس حکم کو دہرانے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ خدا کو جو دینداری مطلوب ہے وہ صرف خوف خدا کے ساتھ باقی رہ سکتی ہے۔ اس کا خوف اگر ختم ہو جائے تو پھر جو کچھ بچتا ہے اسے یہودیت کہتے ہیں یا پھر مسیحیت۔ سورہ فاتحہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہودی اور عیسائی دو گروہ نہیں بلکہ دو کردار ہیں، جن کے نقش قدم پر چلنے سے اللہ کی پناہ مانگنے کا حکم دیا گیا ہے۔
قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ یہودیت وہ کردار ہے جس میں لوگوں کو اپنا خیر الامم ہونا تو یاد رہتا ہے مگر وہ بھول جاتے ہیں کہ اس کی ذمہ داریاں کیا ہیں۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ دنیا کو ہدایت اب ان ہی کے ذریعے سے ملے گی۔ ایسے لوگ حق کے علمبردار بنتے ہیں، مگر عملی طور پر ان کی اکثریت بے کردار ہوتی ہے۔ دین و ایمان کے ظاہری تقاضوں کی ان کے ہاں دھوم ہوتی ہے، مگر ایمان و اخلاق کے اصل مطالبات کی یہ لوگ ہر قدم پر خلاف ورزی کرتے ہیں۔
مسیحیت ایک دوسرا کردار ہے۔ یہ کردار غلو، بدعات اور اسی نوعیت کی دیگر گمراہیوں سے عبارت ہوتا ہے۔ اس کردار کے حاملین دین کے عطا کرنے والی ہستی کو خدا سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ وہ اس کے نام کی مالا جپتے، اس کے عشق کا دم بھرتے، مشکلات میں اس کا نام لیتے، مگر عملی طور پر اس کی سیرت کی پیروی نہیں کرتے۔ وہ اصل دین اور سنت کے بجائے بدعات کو دین بنا لیتے ہیں۔ اپنی ہر گمراہی کو دین سمجھ کر اس میں مگن رہتے ہیں۔
یہ دونوں قسم کے کردار بے خوفی کی نفسیات سے پیدا ہوتے ہیں۔ ایک دفعہ یہ کردار پیدا ہو جائے تو انسان جہنم کے سوا کہیں اور نہیں جاتا۔ تقویٰ اسی انجام سے انسان کو بچاتا ہے۔