قرآن کی رہنمائی ۔ ابویحییٰ
قرآن مجید اپنی ذات میں ایک بے مثل رہنما ہے۔ یہ صرف بول کر رہنمائی نہیں کرتا، بہت سے امور میں نہ بول کر بھی رہنمائی کر دیتا ہے۔ مثلاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کا آغاز ہوا تو مخالفت، دشمنی، جھوٹ، الزام، بہتان، نفرت انگیز پروپیگنڈا، تشدد اور ہر طرح کے ظلم و ستم کا آغاز ہوگیا۔ دعوت مدینہ پہنچی تو پے درپے جنگیں مسلط کر دی گئیں۔ دوسری طرف یہود اور منافقین تھے جنھوں نے اندرونی سازشوں، مکر و فریب اور اخلاق سے گری ہوئی حرکتوں کا مظاہرہ شروع کر دیا۔ ان کی بہت کچھ تفصیل کتب سیرت اور تاریخ میں دیکھی جاسکتی ہے۔
مگر حیرت انگیز طور پر قرآن مجید نے ان چیزوں پر زیادہ گفتگو نہیں کی۔ جو کچھ ذکر ہے وہ زیادہ تر ان کفار و منافقین پر اتمام حجت کے لیے ہے۔ جس طرح آج کے مسلمانوں میں ہر طرف سازشوں کا ذکر ہے، قرآن مجید نے کسی سازش کو اپنا موضوع نہیں بنایا۔ اس کے برعکس اس نے مسلمانوں کو صبر اور تقوی کی تلقین کی۔ عفو و درگزر اور اعراض سے کام لینے کا سبق دیا۔ خدا سے زندہ تعلق، اس کی عبادت اور اطاعت میں سرگرم رہنے کی تلقین کی اور شیاطین کے مکر سے اللہ کی پناہ مانگتے رہنے کا حکم دیا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی اس تلقین کا سبب بالکل واضح ہے۔ اللہ تعالیٰ جانتے ہیں کہ ہر وقت سازشوں اور مخالفتوں کا ذکر ان کو کم نہیں کرتا بلکہ انسان کو منفی سوچ کا حامل بنا دیتا ہے۔ منفی سوچ کا انسان آخرکار شیطان کا ایجنٹ بن جاتا ہے۔ وہ معاشرے میں ظلم، نفرت اور برائی ہی کو فروغ دیتا ہے۔ چاہے وہ مذہب اور حق کا نام لے۔ اس کے برعکس صبر، تقویٰ، درگزر، خدا کی یاد اور خدا کی پناہ کو اپنی زندگی بنانے والے لوگ مثبت سوچ کے حامل بن جاتے ہیں۔ مثبت سوچ کا انسان ہمیشہ خیر پھیلاتا ہے۔ بھلائی کو فروغ دیتا ہے اور دوسروں کے لیے نفع بخش بن جاتا ہے۔ دنیا و آخرت کی کامیابی ایسے ہی لوگوں کا مقدر ہے۔