قبر کی پکار ۔ ابویحییٰ
نماز جنازہ میں شرکت کرنا ہماری روایت ہے۔ یہ مرنے والے کے حقوق میں سے ایک حق ہے جو ہر قریبی شخص پر عائد ہوجاتا ہے۔ اس روایت کی وجہ بظاہر یہ معلوم ہوتی ہے کہ دنیا سے جانے والے ایک بھائی کو عزت و احترام سے رخصت کیا جائے اور رب کے حضور پیشی کے وقت دعاؤں کی سوغات اس کے ہم رکاب کی جائے۔
مرنے والے اور اس کے لواحقین سے گہرا تعلق رکھنے والے لوگ نمازِ جنازہ کے بعد قبرستان تک ساتھ جاتے ہیں۔ وہ جنازے کو کندھا دیتے ہیں۔ اپنے بھائی کو قبر میں اتارتے وقت موجود رہتے ہیں۔ اس کی قبر پر مٹی ڈالتے ہیں اور واپسی سے پہلے ایک دفعہ پھر رب کے حضور اس کی خطاؤں پر در گزر کی درخواست کرتے ہیں۔
اس پورے عمل کا ایک بہت بڑا فائدہ ان لوگوں کو بھی ہوتا ہے جو جنازے کے ہمراہ ہوتے ہیں۔ انسان زندگی کی گہما گہمی میں موت کی تلخ حقیقت کو فراموش کیے رہتا ہے۔ مگر جنازے میں شرکت کا یہ عمل اسے موت کے ناگزیر سانحے کی یاد دہانی کرا دیتا ہے۔ اسے یاد آجاتا ہے کہ یہ مرنے والا اسی طرح پیدائش، نکاح، معاش اور زندگی کے دیگر معاملات سے گزرا جس طرح وہ گزر رہا ہے۔ مگر ان سب کے باوجود جس طرح موت نے مرنے والے کو آدبوچا، اس کا وقت بھی جلد ہی آنے والا ہے۔
مگر لوگوں کا حال یہ ہے کہ عین جنازہ اور دفن کے مناظر کے وقت بھی ان کی توجہ دنیا کی طرف لگی رہتی ہے۔ کوئی میت کے حالات پر گفتگو کرتا ہے، کوئی سیاست کو موضوع بحث بناتا ہے۔ کسی کو قبرستان میں امریکی سازشیں یاد آجاتی ہیں اور کوئی قبرستان کی حالت زار کا رونا رونے لگتا ہے۔ بہت سے لوگوں کے لیے یہ عزیزوں، رشتہ داروں سے ملنے کا نادر موقع ہوتا ہے اور وہ ایک دوسرے کے کاروباری حالات اور خاندانی معاملات پر گفتگو شروع کر دیتے ہیں۔
جو لوگ بہت زیادہ بولتے ہیں وہ سنتے نہیں ہیں۔ ورنہ اگر سننے والے کان ہوں تو اُس وقت وہ قبر کی پکار کو ضرور سنیں گے جو چیخ چیخ کر لوگوں کو بتاتی ہے کہ اے غافلو! میرے پاس آئے ہو تو لمحہ بھر کے لیے سہی، اِس دنیا کو چھوڑ کراُس دنیا کو یاد کر لو۔ میں آخرت کا دروازہ ہوں۔ یہ دروازہ آج تمہارے بھائی پر کھلا ہے بہت جلد یہ تمہارے لیے کھول دیا جائے گا۔