ہماری اصل جنگ کیا ہے؟ ۔ ابویحیی
اس دنیا میں انسان کا اصل مقصد
قرآن مجید اپنے اس مدعا میں آخری درجہ میں واضح ہے کہ انسان کو اس دنیا میں آخرت کی ابدی فوز و فلاح حاصل کرنے کے لیے بھیجا گیا ہے۔ آخرت کی یہ اہمیت اور انسان کا جہنم کی کھائی سے بچ کر جنت کی باشاہی تک پہنچنا قرآن مجید کے نزدیک اتنا اہم ہے کہ محض فال نکالنے کے طریقے پر اگر آپ کبھی قرآن مجید کا کوئی صفحہ کھول لیں تو آپ پر یہ انکشاف ہوگا کہ قرآن کے ہر صفحے پر بالواسطہ یا بلاواسطہ طریقے پر یہ مضمون بیان ہوتا ہے۔
یہ بات جو میں بیان کر رہا ہوں کوئی اجنبی بات نہیں۔ سب مسلمان خواص و عوام اس بات کو مانتے ہیں اور مسلمانوں کا ہر گروہ ہر دور میں اس حقیقت کو مانتا اور بیان کرتا رہا ہے۔ یہ قرآن مجید کا ہم پر بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے ہمیں اپنی منزل کے بارے میں کسی پہلو سے بھی کسی شک و شبہ میں نہیں رہنے دیا۔ اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کا ہم پر یہ بھی بڑا عظیم احسان ہے کہ اس نے قرآن مجید میں واضح طور پر یہ بتا دیا ہے کہ فلاح آخرت کی اس منزل تک پہنچنے کا راستہ کیا ہے۔ یہ بات تفصیل اور اختصار دونوں طریقوں پر قرآن مجید میں بہت مقامات پر بیان کی گئی ہے۔ جن لوگوں کو تفصیل میں یہ بات دیکھنا ہے وہ میری کتاب ’’قرآن کا مطلوب انسان ‘‘ کا مطالعہ کرسکتے ہیں۔ اس کتاب میں قرآن و حدیث کی روشنی میں وہ ایک ایک عمل بیان کر دیا گیا ہے جس کے کرنے یا نہ کرنے پر ہماری اخروی نجات موقوف ہے۔
قرآن مجید اس تفصیل کو جب مختصر کر کے بیان کرتا ہے تو بلاشبہ سمندر کو کوزے میں بند کر دیتا ہے۔ اس اختصار میں وہ ہمیں بتاتا ہے کہ ہمیں جو اعمال کرنے ہیں اور جن کو قرآن مجید عمل صالح کہتا ہے، ان کو کرنے کے بعد نتیجہ یہ نکلنا چاہیے کہ ہمارا نفس یا دور جدید کی اصطلاح میں ہماری شخصیت کو پاکیزہ ہوجانا چاہیے۔ جنت اسی پاکیزگی کا بدلہ ہے۔ اس بات کو قرآن مجید نے کئی مقامات مثلاً اعلیٰ (14:87)، الشمس(91:10-7)، طہ(20:76-75) اور دیگر کئی مقامات پربھی بیان کیا ہے۔
ہمارے نفس کے کچھ مسائل
تاہم نفس انسانی کی یہ پاکیزگی، اسے بہتر بنانے کا عمل، شخصیت کی بہتری اور اس میں ارتقا، اپنی کمزوریوں اور خامیوں پر قابو، اچھی عادتوں اور رویوں کا اختیار کرنا کوئی سادہ بات نہیں ہے۔ یہ اس روئے ارض پر کیا جانے والا مشکل ترین کام ہے۔ یہ کام اتنا مشکل ہے کہ ہر دور میں لوگوں نے اس مشکل کام کو چھوڑ کر مذہب کے نام پر بہت سے ایسے کام کرنا شروع کر دیے جو دیکھنے میں بظاہر مشکل ہیں لیکن کچھ عرصہ کی عادت اور کوشش کے بعد بہت آسان ہوجاتے ہیں۔ تاہم اس مضمون کا مقصد مذہب کے نام پر کیے گئے ان انحرافات پر گفتگو کرنا نہیں بلکہ یہ واضح کرنا ہے کہ جو کام قرآن مجید بتاتا ہے یعنی اپنے نفس کو پاکیزہ بنانا وہ کتنا مشکل کام ہے۔ یہ لمحہ لمحہ کی وہ جنگ ہے جو ساری زندگی لڑنی پڑتی ہے اور موت تک کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ اپنے نفس یا شخصیت کو پاکیزہ بنا چکا ہے۔ اس حقیقت کو سمجھانے کے لیے ضروری ہے کہ انسانی شخصیت کا تجزیہ کر کے یہ دیکھا جائے کہ یہ کیا ہے، کس طرح تشکیل پاتی ہے اور تزکیہ نفس کی راہ میں خود ہمارا نفس کس طرح مزاحم ہو جاتا ہے۔
نفس انسانی کے تشکیلی عناصر
انسان اس دنیا میں جوانی کے عالم میں قدم نہیں رکھتا نہ وہ ایک روز اچانک اس زمین پر آسمان سے نازل ہوجاتا ہے۔ انسان ایک بہت چھوٹے اور معصوم سے بچے کی شکل میں اپنے ماں باپ کے ہاں جنم لیتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں یہ کہ معصوم انسان ایک فطرت صالحہ لے کر اس دنیا میں آتا ہے۔ مگراس سے کہیں زیادہ مضبوط اور فعال عناصر انسانی شخصیت کی تشکیل اپنے اپنے طریقے پر کرتے ہیں۔
ان میں سب سے پہلا اور بنیادی عنصر یہ ہے کہ انسان جس طرح اپنے ماں باپ اور دیگر قریبی رشتہ داروں کی جنیاتی ساخت وراثت میں لے کر آتا ہے، اسی طرح ان کی شخصیت، مزاج اور طبیعت کا بھی ایک عکس اپنے اندر لے کر پیدا ہوتا ہے۔ یہ بات تو سب جانتے ہیں کہ نیا پیدا ہونے والا بچہ یا بچی شکل و صورت میں ماں، باپ اور دیگر قریبی رشتہ داروں کے مشابہ ہوتا ہے۔ یہ مشابہت کبھی کسی ایک شخص کی ہوتی ہے اور کبھی ایک سے زیادہ لوگوں کے اثرات کم یا زیادہ اس پر نظر آتے ہیں۔ مثلاً ناک اور آنکھیں ماں کی ہیں تو رنگ باپ پر چلا گیا ہے۔ قد و قامت دادا کا ہے تو شکل پر چچا یا ماموں کے اثرات نمایاں ہوجاتے ہیں۔
ٹھیک یہی معاملہ انسان کی طبیعت اور مزاج کا ہوتا ہے۔ باپ میں اگر بہت غصہ ہوتا ہے تو چار پانچ بچوں میں سے کسی ایک میں یہی چیز نمایاں ہو جاتی ہے۔ ماں اگر بہت دھیمے مزاج کی ہے تو کوئی نہ کوئی بچہ مزاج کا یہ رنگ اپنے اندر ضرور رکھتا ہے۔ مگر ضروری نہیں کہ بڑے ہونے پر بعینہ بچہ اس مزاج میں ڈھلا ہوا نظر آئے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ یہ اثر ایک حد تک ہی ہوتا ہے اور لوگ مزاج میں کاربن کاپی نہیں ہوا کرتے۔ دوسرے یہ کہ وراثت سے ملنے والے ان اثرات کے علاوہ بھی بہرحال دیگر عوامل شخصیت کی تشکیل کرتے ہیں۔ یہ ممکن ہے کہ ان عوامل کی وجہ سے مزاج پر وراثت کے اثرات کچھ کم ہو جائیں لیکن یہ بہرحال ہوتے ضرور ہیں۔
ماحول اور وراثت کے اثرات
وراثت سے کہیں زیادہ بڑھ کر انسان کی صورت گری اس کا ماحول کرتا ہے۔ وراثت کی طرح یہ ماحول بھی انسان کو اس کی مرضی کے بغیر ابتداء ہی سے خود بخود مل جاتا ہے۔ یہ ماحول انسان کا گھر اور گھر والے، رشتہ دار، محلے والے، اساتذہ، دوست، رفقاء اور آج کل کے دور میں ٹی وی اور میڈیا بھی فراہم کرتے ہیں۔
ایک چھوٹا بچہ زبان یہاں سے سیکھتا ہے۔ کھانے پینے کی عادات یہاں سے اخذ کرتا ہے۔ سونے جاگنے کے اوقات یہاں سے متعین کرتا ہے۔ ملنے جلنے کے طریقے، لب و لہجہ، رسوم و رواج یہاں سے لیتا ہے۔ یہ ساری چیزیں ضروری نہیں کہ انسان کو باقاعدہ سکھائی جائیں۔ ماحول خود سب سے بڑا استاد ہوتا ہے۔ یہ وہ مدرسہ ہے جس کا نصاب تقدیر طے کرتی ہے۔ یہ ایک خاندان کے ہر فرد کے لیے بہت مختلف ہوسکتا ہے۔ مگر ہر انسان چاہے نہ چاہے اس مدرسے کا طالب علم بننے پر مجبور ہے اور وہ وہی کچھ بن کر نکلتا ہے جو یہ مدرسہ اسے غیر نصابی اور غیر رسمی انداز میں سکھاتا ہے۔ یہ مدرسہ چھوٹی عمر ہی نہیں بلکہ بڑی عمر تک انسان پر اپنے اثرات مرتب کرتا ہے اورغیر شعوری طور پر انسان مجبور ہوتا ہے کہ اپنے آپ کو اس ماحول کے مطابق ڈھالتا رہے جو اس کی تقدیر اس کے لیے طے کر چکی ہے۔
فطرت، وراثت اور ماحول کے اثرات اپنی جگہ مگر انسانی شخصیت کی تشکیل میں اہم ترین کردار تعلیم و تربیت کا ہوتا ہے۔ ماحول کے برعکس جو غیر شعوری اور غیر رسمی طور پر بچے کی شخصیت میں اپنا حصہ ڈالتا ہے، تعلیم و تربیت پورے شعور سے اور رسمی طور پر اس لیے دی جاتی ہے کہ ماں باپ اور معاشرہ یہ چاہتے ہیں کہ بچہ ان کی اقدار اور روایات کے مطابق ان کے خاندان اور سماج کا حصہ بنے۔
یہ بات ایک منطقی حقیقت ہے کہ عام حالات میں تربیت وہی ہوتی ہے جس طرح کا ماحول انسان کو ملا ہوتا ہے۔ تاہم والدین اور معاشرے اگر چاہیں تو تعلیم اور تربیت اتنی مضبوط اور فیصلہ کن قوت ہے کہ اس کے ذریعے سے وہ بچے پر ماحول اور وراثت کے تمام اثرات کو مٹا کر اس کی شخصیت کو ایک نئے سانچے میں ڈھال سکتے ہیں۔
بچے میں اگر غصے کی عادت ہے تو اس کو تربیت سے یہ سکھایا جاسکتا ہے کہ اس پر قابو کیسے پایا جائے۔ بچے کے ماحول نے اگر اس کے انداز گفتگو میں بدتمیزی کا عنصر پیدا کر دیا ہے تو تربیت اس کو با ادب اور تمیزدار بنا سکتی ہے۔ یہی تربیت کی اصل اہمیت ہے کہ یہ انسانی شخصیت کی تشکیل کے عمل کو جس رخ پر چاہے موڑ سکتی ہے۔
انسانی آزمائش
اوپر کی یہ گفتگو اگر واضح ہے کہ بچے کی شخصیت کی تشکیل میں وراثت، ماحول اور تعلیم و تربیت کا کیا کردار ہوتا ہے تو اب یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ ان عوامل کی بنیاد پر انسان سن شعور میں قدم رکھنے سے قبل جو کچھ بننا ہوتا ہے، بن چکا ہوتا ہے۔ پندرہ سترہ برس کی جس عمر میں انسان آزادانہ طور پر سوچنے اور فیصلہ کرنے کے قابل ہوتا ہے، اس کی شخصیت اس عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی ان عوامل کے تحت ایک خاص رخ اختیار کرچکی ہوتی ہے۔ انسان اپنے ماضی کا قیدی ہوچکا ہوتا ہے۔ اب اس کے بعد وہ خود کو جتنا چاہے آزاد سمجھے، خود مختار خیال کرے، خود کو اپنی زندگی کا مالک جانے؛ وہ درحقیت اپنے اس مزاج اور طبیعت کا اسیر ہوتا ہے جس کی تشکیل اس کی وراثت، ماحول اور تربیت بہت پہلے کرچکی ہوتی ہیں۔ لوگ خوش اخلاق ہوں یا بداخلاق، نرم مزاج ہوں یا غصیلے، جلد باز ہوں یا تحمل مزاج، سخی ہوں یا کنجوس، خود غرض ہوں یا بے لوث، بہادر ہوں یا بزدل؛ وہ جو بھی ہوں اپنے ماضی کا ایک عکس ہوتے ہیں۔
دیکھنے میں یہ بات ایک انسانی المیہ لگتی ہے، مگر یہ انسانی المیہ نہیں آزمائش ہے۔ خالق کائنات کا انسان کے بارے میں فیصلہ یہی ہے کہ وہ جب سن شعور کو پہنچے گا تو بہرحال اس کی شخصیت ایک خاص رخ پر ڈھل چکی ہوگی۔ مگر رب کریم چونکہ بہت مہربان ہے اس لیے اس نے انسانوں کو دو ایسی بھرپور صلاحیتیں دی ہیں جن کی مدد سے وہ باآسانی اس آزمائش سے سرخرو ہوکر نکل سکتا ہے۔
ان میں سے پہلی صلاحیت عقل و فہم کی وہ صلاحیت ہے انسان کی طرح جو روئے ارض پر کسی اور مخلوق کو حاصل نہیں۔ دوسری صلاحیت قوت ارادی اور اپنا فیصلہ نافذ کرنے کی طاقت ہے۔ یہ وہ دو صلاحیتیں ہیں جن کے بل بوتے پر انسان نے ہر دور میں دنیا پر راج کیا ہے اور آج وہ فطرت کی تمام قوتوں کو مسخر کرچکا ہے۔ وہ زمین پر ہر جاندار سے زیادہ تیز رفتری سے سفر کرتا، ہوا میں اڑتا، سمندر کا سینہ چیر کر اپنی منزل تک پہنچتا اور اب تو خلا عبور کر کے دیگر سیاروں پر بھی کمند ڈال رہا ہے۔ انسان ان دوچیزوں کو استعمال کر لے تو وہ اپنی شخصیت کی تشکیل نو کر کے اسے اس سانچے میں ڈھال سکتا ہے جو اللہ کو پسند ہے اور جسے قرآن مجید تزکیہ نفس کہتا ہے۔
انسانی المیہ
تاہم یہ بڑا المیہ ہے کہ اکثر و بیشتر انسان سرے سے اپنی اس آزمائش سے واقف ہی نہیں ہیں۔ دوسروں کو چھوڑیے خود مسلمان کہلانے اور سمجھنے والے لوگ حتیٰ کہ ان کے بہت سے علماء اس حقیقت کو نہیں سمجھتے کہ اس دنیا میں آنے کے بعد جو اصل جنگ لڑی جانی ہے اور جس پر نجات موقوف ہے وہ اپنی اس شخصیت کے خلاف لڑنا ہے جس کی تشکیل ابتدائی برسوں میں ہوگئی ہے اور جس کو نئے سرے سے تعمیر کرنا اصل دین ہے۔ دین کے سارے مطالبات اسی مرکزی خیال کے اردگرد گھومتے ہیں۔
اس سے زیادہ بڑا المیہ یہ ہے کہ خالق کائنات نے اسے اس آزمائش سے نمٹنے کے لیے اور اپنی شخصیت کی تشکیل نو کے لیے جو غیر معمولی ہتھیار عطا کیے ہیں یعنی عقل و بصیرت اور قوت ارادی، انسان ان دونوں ہتھیاروں کو اپنی شخصیت کے خلاف استعمال کر کے اس کی تعمیر نو کرنے کے بجائے جو کچھ غلط صحیح گھروندا بن چکا ہے ان ہتھیاروں کو اس گھروندے کی حفاظت پر مامور کر دیتا ہے۔
وحی اترتی ہے اور انسانوں کو یہ بتاتی ہے کہ دیکھو تمھارے آباء اجداد اور ماحول کے اثر سے تمھارے عقائد، نظریات اور خیالات غلط ہوچکے ہیں۔ ہم عقلی طور پر تمھیں قائل کر دیتے ہیں، اس کے بعد تم قوت ارادی استعمال کر کے خود کو بدلو۔ مگر لوگ یہ بات کہنے والے کے پیچھے لگ جاتے ہیں۔ اپنی عقل کو بات سمجھنے کے بجائے مخالفت اور قوت ارادی اور تمام تر عملی صلاحیتوں کو داعی حق کے خلاف استعمال کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ پیغمبر کھڑے ہوکر بتاتے ہیں کہ تمھاری اقدار غلط ہیں، تمھارے اخلاق آلودہ ہیں، تمھاری روایات اصل دین سے انحراف ہیں، مگر لوگ ان کی بات سننے اور سمجھنے کے بجائے کانوں میں انگلیاں ٹھونس کر پتھروں کی طرح اپنے عمل پر جم جاتے ہیں۔
ایمانی رویہ
تاہم اس کے برعکس ایک دوسرا رویہ یہ ہوتا ہے کہ لوگ اپنی وراثت، ماحول اور تربیت کے اثرات کو ایک کونے میں رکھ کر سنجیدگی کے ساتھ سوچتے ہیں کہ کیا یہ بات ٹھیک ہے۔ ان کی عقل بتاتی ہے کہ یہ بات واقعی ٹھیک ہے۔ ان کی فطرت جو سب سے نیچے دبی ہوئی ہوتی ہے، دوبارہ ابھر کر سامنے آتی ہے اور اس بات کی تائید کر دیتی ہے۔ جس کے بعد وہ اپنی قوت ارادی کو استعمال کرتے ہیں اور اپنی شخصیت کی تعمیرنو کا عزم کرتے ہیں۔ پہلے مرحلے پر وہ اپنے اعتقادات اور نظریات کا جائزہ لیتے ہیں اور ماضی کے ہر غلط تصور اور اعتقاد سے پیچھا چھڑا کر نئی بات قبول کرتے ہیں۔ یہ ایمان لانے کا عمل ہے۔ اس کے بعد وہ اپنی شخصیت کو ان تقاضوں کے مطابق ڈھالنا شروع کرتے ہیں جن کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ یہ عمل صالح ہے۔ ایمان و عمل صالح کا یہ عمل اپنے نتیجے کے اعتبار سے شخصیت کی تعمیرنو کا عمل ہے۔ یہ زندگی بھر کے بنے بنائے ڈھانچے کو گرا کر نئے سرے سے تعمیر کرنے کا وہ کام ہے جسے قرآن تزکیہ نفس کہتا ہے۔
ہمارا کام
تزکیہ نفس کا یہ عمل ہم میں سے ہر شخص پر فرض ہے۔ اس کے بغیر جنت میں داخلہ ممکن نہیں۔ آج بھی ہمیں اپنی وراثت، ماحول اور تربیت سے بننے والی شخصیت کا جائزہ لینا ہوگا۔ اپنے تعصبات، عادات، خواہشات اور ترجیحات کو قرآن و سنت کی روشنی میں دیکھنا ہوگا۔ اپنے ماضی کو مقدس سمجھ کر اس سے چمٹے رہنے کے بجائے اس کا تنقیدی جائزہ لینا ہوگا۔ جو شخص کوئی بات بتائے اس سے متوحش ہونے کے بجائے اس کی بات سننی ہوگی۔ اپنے رویوں کی اصلاح کا عزم کرنا ہوگا۔ اس روش کے بغیر جنت کے جتنے خواب چاہے ہم دیکھ لیں، ہم میں اور ایک یہودی، عیسائی اور ہندوؤں میں اصلاً کوئی فرق نہیں۔ ہم بھی جہاں بیٹھ گئے، جو سن لیا اور جو بن گئے اگر اسی پر جمے رہے تو ہم میں اور ایک غیر مسلم میں پھر کوئی فرق نہیں۔ پھر اسے جہنم میں پھینکنا اور ہمیں جنت میں بھیجنا ایک ایسی ناانصافی ہے جو عالم کا پرودگار کبھی نہیں کرسکتا۔
تاہم یہ اہم سوال ابھی باقی ہے کہ برسوں کی بنی بنائی شخصیت کو توڑ کر نئے رویوں میں کیسے ڈھالا جائے۔ اس پر انشاء اللہ آئندہ بات ہوگی۔ جہاں رہیں بندگان خدا کے لیے باعث رحمت بنیے، باعث آزار نہ بنیے۔