پوزیٹو کرکٹ ۔ ابو یحییٰ
کرکٹ کا شمار دنیا کے مقبول ترین کھیلوں میں ہوتا ہے۔ اس کھیل کی اہمیت کی بنا پرکسی ملک کی قومی ٹیم میں بہترین کھلاڑیوں کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ مگر بارہا ایسا ہوتا ہے کہ ایک باصلاحیت کھلاڑی انٹرنیشنل سطح پر آکر خود کو منوا نہیں پاتا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ کرکٹ جسمانی کھیل ہونے کے ساتھ ایک ذہنی کھیل بھی ہے۔ یہاں ہر کھلاڑی خود کو قسمت اور حالات کے رحم و کرم پر پاتا ہے۔ یہ دونوں مل کر ایک دباؤ کی کیفیت پیدا کرتے ہیں۔ اس دباؤ میں بہترین کھلاڑی بھی اپنی صلاحیت کا مظاہرہ نہیں کر پاتا۔ مثلاً کسی وقت اگر ایک ساتھ کئی وکٹیں گر جائیں تو نیا آنے والا بہترین بیٹسمین بھی صرف دباؤ کی وجہ سے آؤٹ ہوجاتا ہے۔
اس وجہ سے کرکٹ کے میدان میں اترنے والے کھلاڑیوں کو اکثر یہ نصیحت کی جاتی ہے کہ وہ پوزیٹو رہیں۔ کرکٹ میں پوزیٹو ہونے کا مطلب یہ ہے کہ کھلاڑی صورتحال کا اثر لیے بغیر اپنی صلاحیت کا استعمال کرے۔ وہ دباؤ کو نظر انداز کر کے ایک ایک بال کو میرٹ پر کھیلے۔ روکنے والی گیند کو روکے اور مارنے والی کو مارے۔ یہی کرکٹ میں کامیابی کا راز ہے۔
یہی پوزیٹو رویہ زندگی کے میدان میں بھی کامیابی کا راز ہے۔ اس دنیا میں ہر انسان کوئی نہ کوئی صلاحیت لے کر آتا ہے، مگر اس کے ساتھ ساتھ زندگی میں بہت سے ایسے مسائل ہوتے ہیں جو انسان پر دباؤ اور ٹینشن پیدا کر دیتے ہیں۔ ایسے میں انسان صرف مشکلات، مسائل اور دباؤ پر نظر رکھے گا تو وہ کبھی زندگی میں بڑی کامیابی حاصل نہیں کرسکتا۔ بڑی کامیابی صرف اس شخص کو ملتی ہے جو حالات کے دباؤ اور پریشانیوں کے باجود ملے ہوئے مواقع کو استعمال کرے، اور جو مسائل کے باجود مواقع کی تلاش میں رہے اور موقع ملنے پر اپنی بہترین صلاحیت کو استعمال کرے۔
اسی طرح زندگی کی کسی ایک اننگز میں ناکامی کا مطلب یہ نہیں کہ انسان ہر جگہ ناکام ہوگیا ہے۔ اسے زندگی کی اگلی اننگز اور اگلے موقع کا انتظار کرنا چاہیے۔ قدرت اپنے قانون کے تحت اسے یہ موقع لازماً دے گی۔ اسے مایوس ہوئے بغیر اس موقع کا انتظار کرنا چاہیے اور جیسے ہی موقع ملے، اپنی پوری صلاحیت اس میں لگا کر اسے استعمال کرنا چاہیے۔
زندگی کا میدان کرکٹ کے میدان سے زیادہ مختلف نہیں۔ مثبت اندازِ فکر دونوں میدانوں میں کامیابی کا ضامن ہے۔