گھریلو تشدد اور اسلام ۔ ابویحییٰ
(یہ اس تقریر کا اردو متن ہے جو ابو یحییٰ صاحب نے انگریزی زبان میں یونیورسٹی آف ویسٹرن آسٹریلیا، پرتھ کے سینٹرآف مسلم اسٹیٹ اینڈ سوسائٹیز میں اسکالرز اور طلبا و طالبات کے سامنے کی۔“)
حاضرین گرامی قدر۔ میں گفتگو کے آغاز میں سب سے پہلے ڈاکٹر ثمینہ یاسمین اور ڈاکٹر عظیم کا شکر یہ ادا کرنا چاہوں گا کہ انھوں نے مجھے اس معزز تعلیمی ادارے میں آکر گفتگو کا موقع فراہم کیا۔
جس موضوع پر آج مجھے یہاں اپنی گزارشات پیش کرنی ہیں یعنی domestic violence وہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر ہم سب اتفاق کریں گے کہ مہذب معاشروں میں گھریلو تشدد کا ہونا ایک قابل شرم بات ہے۔ مگر بدقسمتی سے یہ ایک حقیقت ہے کہ تمدن کی تمام تر ترقی کے باوجود مشرق ہو یا مغرب، ہر جگہ خواتین کو گھر کے اندر اور باہر بہت سی زیادتیوں، مشکلات اور خوف کا سامنا ہے۔ گھریلو تشدد اس ظلم کی ایسی ہی ایک قسم ہے۔
ایک زمانے تک یہ سمجھا جاتا رہا کہ گھریلو تشدد پدرسری (patriarchal) نظام کا لازمی خاصہ ہے۔ یہ ختم ہوگا اور خاندان کے ادارے میں مرد و عورت کی حیثیت برابر ہوجائے گی تو اس کا خاتمہ بھی ہوجائے گا۔ تاہم باوجود اس کے کہ ہم زرعی دور سے گزر کر صنعتی بلکہ انفارمیشن ایج میں داخل ہوچکے ہیں اور اب خاندان مرد و زن کی برابری کے اصول پر بنائے جارہے ہیں، یہ مسئلہ پوری قوت سے باقی ہے۔
ہمارے جیسے ملک میں گرچہ گھریلو تشدد کے واقعات کو رپورٹ کرنے کا رجحان بہت کم ہے، لیکن اپنے عوامی اور مذہبی پس منظر کی بنا پر مجھے یہ اندازہ ہے کہ خواتین پر گھریلو تشدد کا رجحان اس سے کہیں زیادہ موجود ہے جتنا بعض این جی اوز بیان کرتی ہیں۔ یہ دیہی علاقوں کا نہیں بلکہ شہری علاقوں کا معاملہ بھی ہے جہاں پدرسری (patriarchal) نظام عملی طور پر دم توڑ چکا ہے۔ مغربی ممالک میں جہاں خاندان مرد و زن کی برابری کے اصول پر بنتے ہیں یہاں بھی خواتین کو گھریلو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس کی بہت کچھ تفصیل انٹر نیٹ پرہر شخص دیکھ سکتا ہے۔
چنانچہ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ یہ ایک عالمگیر مسئلہ ہے۔ اس کا تعلق پدر سری (patriarchal) معاشرے سے اتنا نہیں ہے جتنا سمجھا جاتا ہے۔ اس کی اصل وجوہات انسانی نفسیات میں پائی جانے والی کچھ کمزوریاں ہیں۔ اسلام نے انھی کمزوریوں کی اصلاح کرکے اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی ہے۔ تاہم قبل اس کے کہ اس حوالے سے میں اسلام کا حل پیش کروں، ضروری ہے کہ ان وجوہات کا جائزہ لیا جائے جو اس مسئلے کے پیچھے کارفرما ہیں۔
انسانی نفسیات کی شاید یہ سب سے بڑی کمزوری ہے کہ طاقت انسان کو ظلم و زیادتی کی طرف لے کر جاتی ہے۔ اس حوالے سے تین چیزیں ایسی ہیں جو کہیں جمع ہوجائیں تو اکثر طاقت ظلم میں بدل جاتی ہے۔ پہلی چیز یہ کہ طاقت ظلم میں اسی وقت بدلتی ہے جب سامنے کوئی کمزور شخص ہو۔ زیادہ طاقتور کے مقابلے میں طاقت استعمال نہیں ہوسکتی۔ دوسری چیز یہ ہے کہ طاقت ظلم و تشدد میں اسی وقت بدلتی ہے جب طاقتور کو کسی بالاتر اتھارٹی کا خوف نہ ہو جو اسے اس ظلم و تشدد پر پکڑ سکے۔ سامنے والا کمزور ہو، لیکن ہمیں معلوم ہو کہ ظلم کی شکل میں تیسری اتھارٹی پوری قوت کے ساتھ حرکت میں آئے گی، یہ چیز بھی ہمیں طاقت کے غلط استعمال سے روکتی ہے۔ تیسری حقیقت یہ ہے کہ طاقت عام طور پراسی وقت استعمال ہوتی ہے جب انسانوں میں اختلاف پیدا ہوجاتے ہیں۔ یہ اختلاف جھگڑے تک پہنچتے ہیں اور پھر یہی وہ وقت ہوتا ہے جب طاقتور اشتعال میں آکر کمزور انسان پر تشدد کرتا ہے۔
بدقسمتی سے طاقت کے حوالے سے یہ تینوں چیزیں ایک گھر میں ایک ساتھ جمع ہوتی ہیں۔ خاندان کا ادارہ مرد اور عورت کے تعلق سے وجود میں آتا ہے۔ اس تعلق میں ایک طرف مرد ہے جو جسمانی طور پر طاقتور ہے اور دوسری طرف عورت ہے جو جسمانی طور پر کمزور ہوتی ہے۔ دوسرا یہ کہ گھر میں اکثر حالات میں مرد و عورت تنہا رہتے ہیں یا پھر اس گھر میں کچھ بچے ہوتے ہیں۔ یا ہمارے مشرقی سماج کی بات کی جائے تو کچھ بزرگ ہوتے ہیں۔ ان میں سے کسی میں اتنی طاقت نہیں ہوتی ہے کہ مرد تشدد پر آمادہ ہوجائے تو عورت کو بچا سکے۔ چنانچہ مرد ان سب سے بے خوف ہوکر اپنی طاقت کا استعمال کرلیتا ہے۔ تیسری حقیقت یہ ہے کہ میاں بیوی کا رشتہ ایسا ہے جس میں دو مختلف مزاج، ذہن اور پس منظر کے لوگ ایک ساتھ رہتے ہیں۔ چنانچہ اختلافات کا پیدا ہونا ایک فطری بات ہے۔ یہ اختلافات بڑھ جائیں تو فریقین میں اشتعال پیدا کرتے ہیں۔ بیوی غصے میں آئے گی توشاید اس کے غصے کا اظہار کسی اور طرح ہو، مگر شوہر غصے میں آتا ہے تو اس کا نتیجہ بارہا بیوی پر تشدد کی شکل میں نکلتا ہے۔
خاندان کے رشتے میں انھی تینوں چیزوں کی موجودگی وہ سبب ہے جس کی بنا پر سماج کی تمام تر کوششوں کے باوجود گھریلو تشدد ایک مسئلہ بنا ہوا ہے اور ہر دور میں بنا رہتا ہے۔ ظاہر ہے کہ جب خاندان بنے گا تو گھر میں ایک طاقتور مرد اور کمزورعورت موجود رہیں گے۔ جب تک انسان ہیں، اس مسئلے کو حل نہیں کیا جاسکتا ہے۔
البتہ گھریلو تشدد کی اگلی وجہ پر قابو پانے کی کوشش کی گئی ہے۔ یعنی طاقتور فریق کو یہ احساس دلانے کی کوشش کی گئی ہے کہ اگر تم نے تشدد کیا اور بیوی نے ریاست اور قانون سے مدد مانگ لی تو تمھیں سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ حل مغربی ممالک میں اپنایا گیا ہے اور ہمارے معاشرے میں بھی خاندانی اور سماجی دباؤ کے ذریعے سے اس مسئلے کو حل کر نے کی کوشش کی جاتی ہے، مگر اس حل میں دو مسائل ہیں۔ ایک یہ کہ گھریلو تشدد باہر کیے جانے والے کسی تشدد سے مختلف ہوتا ہے۔ گھر سے باہر کوئی شخص کسی پر تشدد کرے تو انسان فوراً قانون کی مدد لے کر بدلہ لینا چاہے گا۔ مگر گھر میں خواتین کے سامنے دو مسائل ہوتے ہیں۔ ایک یہ کہ تشدد کرنے والا اس کا لائف پارٹنر ہے۔ عورت فطری طور پر اپنا گھر ٹوٹنے سے بچانا چاہتی ہے۔ معاملہ قانون تک گیا تو گھر ٹوٹنے کا اندیشہ ہے۔ یہ صورتحال اسے معاملے کو رپورٹ کرنے سے روکتی ہے۔ دوسرا یہ کہ یہ تشدد کرنے والا شوہر اس خاص موقع کے علاوہ ممکنہ طور پر محبت کرنے والا شخص ہوتا ہے۔ اس سے جذباتی وابستگی اور مادی منفعت بھی وابستہ ہوتی ہے۔ بارہا یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ شوہر وقتی اشتعال میں مارنے کے بعد معافی مانگ لیتا ہے۔ چنانچہ جب تک انتہا نہ ہوجائے خواتین عام طور پر گھریلو تشدد کے خلاف آواز نہیں اٹھاتیں۔ اس لیے ریاست کی مکمل مدد کے باوجود یہ مسئلہ حل نہیں ہوپاتا۔ اور اگر قانون مداخلت کرے تو خاندان ٹوٹنے کا امکان بڑھ جاتا ہے جو خود ایک مسئلہ ہے۔
تیسری چیز بھی ایسی ہے جس کا کوئی حل نکالنا آسان نہیں ہے۔ یعنی اختلاف اشتعال میں اور اشتعال تشدد میں بدل جاتا ہے۔ جب پدرسری خاندانی نظام کو تشدد کے اس مسئلے کا ذمہ دار سمجھا گیا تو خاندان برابری کے اصول پر بنا دیا گیا۔ لیکن خاندان اگر اس اصول پر بنا ہے کہ مرد اور عورت بالکل برابر کے پارٹنر ہیں تو اختلاف کی صورت میں اکثر فیصلہ نہیں ہوسکتا کہ کس کی بات مانی جائے۔ یوں غصے اور اشتعال کی ایک فضا گھر میں قائم رہے گی۔ اس کا ایک نتیجہ تو یہ نکلتا ہے کہ گھر ہی ٹوٹ جاتا ہے اور بچے ماں باپ کی مشترکہ شفقت سے محروم ہوجاتے ہیں۔ دوسری شکل یہ ہوتی ہے کہ اختلاف اور اشتعال کی اس فضا میں کسی بھی وقت تشدد کا ظہور ہوسکتا ہے۔
اس طالب علم کے نزدیک اسلام اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ان تینوں وجوہات کو ایڈریس کرتا ہے۔ جس سے یہ مسئلہ بڑی حد تک ختم ہوجاتا ہے۔ مگر اسلام کا حل پیش کرنے سے پہلے یہاں میں یہ بھی واضح کرتا چلوں کہ تشدد اور ظلم کا یہ مسئلہ تنہا گھریلو تشدد تک محدود نہیں۔ یہ انسانی نفسیات کی کمزوری ہے کہ انسان کمزور کے مقابلے میں اخلاقی حدود کی کہیں بھی پاسداری نہیں کرتا اور ہر جگہ ظلم و تشدد پر آمادہ ہوجاتا ہے۔ خواتین کو اپنی اس کمزوری کی بنا پر گھر سے باہر بھی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ معاشرے میں طاقتور طبقات کمزور طبقات پر ظلم کرتے ہیں۔ طاقتور اقوام کمزور اقوام پر ظلم کرکے ان کو بعض اوقات برباد کر دیتی ہیں۔ ہم یہ سب کچھ روز اپنی آنکھوں سے ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ اسلام کا حل نہ صرف گھریلو تشدد بلکہ ظلم کی ہرقسم کو ختم کرنے میں مدد دیتا ہے۔
اسلام کے نزدیک خرابی دراصل انسان کی ہے۔ چنانچہ قرآن نے نہ صرف گھریلو تشدد بلکہ ظلم و زیادتی کی ہر قسم کو ختم کرنے کے لیے جو راستہ اختیار کیا ہے وہ قانون سازی سے زیادہ انسانوں کی تربیت پرمبنی ہے۔
آپ کو یاد ہوگا کہ پیچھے جو تین مسائل میں نے گنوائے ہیں ان میں سے پہلا مسئلہ یہ تھا کہ خاندان جسمانی طور پر ایک طاقتور مرد اور ایک کمزورعورت سے مل کر بنتا ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ کائنات بنانے والے کی اپنی اسکیم ہے جس میں مرد جسمانی طور پر عورتوں سے طاقتور ہیں بلکہ ہر جگہ ہی کچھ لوگ دوسروں سے زیادہ طاقتور ہوتے ہیں۔ اس کی اپنی مصلحتیں ہیں مگر وہ اس وقت میری گفتگو کا موضوع نہیں۔ بہرحال قرآن میں اللہ تعالیٰ جب گفتگو کرتے ہیں تو وہ طاقت کے اس توازن کو بدلنے کی بات نہیں کرتے بلکہ انسانوں کا تصور زندگی بدلنا چاہتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ قرآن میں واضح کرتے ہیں کہ اس دنیا میں انسان امتحان کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔ یہاں یہ دیکھا جارہا ہے کہ کون ہے جو اپنے اختیار اور طاقت کو خدا کے حکم کے سامنے جھکا کر طاقت کے بجائے اعلیٰ اخلاقی اصولوں پر زندگی گزارتا ہے۔ جو لوگ یہ کریں گے وہ آنے والی دنیا میں ہمیشہ کی کامیابی پائیں گے۔ جو لوگ طاقت پاکر سرکشی اور ظلم کا ارتکاب کریں گے وہ جہنم کی ابدی سزا پائیں گے۔
اس لیے اس دنیا میں مقابلے کا اصل میدان یہ نہیں کہ جو فطرت خدا نے بنا دی ہے اس سے جنگ کی جائے بلکہ کرنے کا کام یہ ہے کہ اخلاقی میدان میں جدوجہد کی جائے تاکہ آنے والی دنیا میں انسان کامیابی پائے۔ چنانچہ قرآن ان معیارات کے بیان سے بھرا ہوا ہے۔ میں صرف ایک مقام یعنی سورہ نحل آیت 90 کو سامنے رکھ رہا ہوں۔
إِنَّ اللّٰہَ یَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالإِحْسَانِ وَإِیْتَآءِ ذِیْ الْقُرْبَی وَیَنْہَی عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنکَرِ وَالْبَغْیِ یَعِظُکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُونَ(90)
یہ آیت گرچہ ہر جگہ انسان کو زندگی گزارنے کا بنیادی اصول دیتی ہے، مگر نکاح کے رشتے میں بندھنے والے مرد کے لیے اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے اسے حکم دیا ہے کہ وہ بیوی سے عدل کرے یعنی جو اس کا حق ہے اسے دے۔ اس کے ساتھ احسان کرے۔ یعنی اسے اس کے حق سے زیادہ دے۔ تیسرا یہ کہ اس پر اپنا مال خرچ کرے۔ خیال رہے کہ نکاح کے رشتے میں دین اسلام کا قانون یہ ہے کہ عورت کی رہائش، لباس، خوراک اور ہر دیگر ضرورت پوری کرنے کی ذمہ داری مرد کی ہے۔ عورت چاہے تو کام کرے اور کمائے، مگر اس کے پیسوں پر مرد کا کوئی حق نہیں۔ لیکن مرد کے پیسے پر عورت کا مکمل حق ہے۔ اور یہ حق اخلاقی نہیں بلکہ قانونی حق ہے۔
اس کے بعد اس آیت میں تین چیزوں سے روکا گیا ہے۔ ان میں سے پہلی یہ ہے کہ مرد اپنی بیوی سے بے وفائی نہ کرے۔ دوسری عورتوں سے ناجائز تعلق رکھ کے اسے ذہنی اذیت نہ دے۔ یہ ہم جانتے ہیں کہ یہ بہت سے مردوں کا مسئلہ ہوتا ہے۔ دوسری چیز یہ کہ انسانی تعلقات میں جو چیزیں مسلمہ طور پر برا رویہ سمجھی جاتی ہیں ان میں سے کسی کا مظاہرہ نہ کرے۔ اور آخری چیز یہ کہ بیوی پر کسی قسم کے ظلم و زیادتی کا ارتکاب نہ کرے۔ یہ ساری چیزیں خواتین سے بھی اسی طرح مطلوب ہیں، مگر مرد چونکہ طاقتور ہے اور خلاف ورزی کا اندیشہ بھی اسی سے ہے اس لیے مرد بدرجہ اولیٰ ان آیات کے مخاطب ہیں۔
آپ غور کیجیے اگر یہ چھ چیزیں کسی بھی تعلق میں موجود ہیں تو اس میں نہ بیوی کو ذہنی اذیت ملے گی۔ نہ جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا جائے گا۔ نہ اس کے ساتھ کوئی اور برا رویہ اختیار کیا جائیگا۔ بلکہ مرد کا مال عورت پر خرچ ہوگا۔ وہ اس کے ساتھ عدل ہی نہیں کرے گا بلکہ احسان بھی کرے گا۔ اس بات کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح بیان کیا ہے۔
تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو اپنے اہل خانہ یعنی بیوی کے ساتھ اچھا ہے اور میں سب سے بڑھ کر اپنے اہل خانہ کے ساتھ اچھا ہوں،(ترمذی، رقم3895)۔
پھر مردوں کو مزید اس رشتے کے حوالے سے خاص طور پریہ بات سمجھائی گئی ہے۔
وَعَاشِرُوہُنَّ بِالْمَعْرُوفِ فَإِن کَرِہْتُمُوہُنَّ فَعَسَی أَن تَکْرَہُواْ شَیْْئاً وَیَجْعَلَ اللّٰہُ فِیْہِ خَیْْراً کَثِیْراً،(النساء 19:4)
یہ آیت مردوں کی اس نفسیات کو ایڈریس کرتی ہے جس میں کوئی لڑکی شادی سے پہلے بڑی اچھی لگتی ہے، مگر شادی کے بعد اس کے عیب نظر آنے لگتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سمجھاتے ہیں کہ ہوسکتا ہے کہ بیوی کی کوئی بات تمھیں ناپسند ہو لیکن درحقیقت اللہ نے اس میں بہت خیر رکھی ہے۔ جسے تم اپنے ذاتی رجحان کی بنا پر نہ دیکھ سکتے ہو۔ بیوی کی خامیوں کے متعلق بھی یہ مثبت سوچ اس رشتے میں دراڑ پیدا ہونے سے روکتی ہے۔
اسلام کی ان تعلیمات کو اگر کوئی شخص مانتا ہے تو پھر گویا کہ اللہ تعالیٰ نے خاندان میں موجود طاقتور مرد کو اس کے اندر سے اس طرح جکڑ دیا ہے کہ وہ کبھی اپنی بیوی کے ساتھ برا نہیں ہوسکتا۔ اس کی طاقت کبھی ظلم، برائی اور تشدد میں نہیں بدلے گی۔ بلکہ بیوی ہمیشہ اپنے شوہر میں ایک بہترین انسان کا تجربہ کرے گی۔
اب رہی دوسری بات یعنی طاقتور کمزور کے مقابلے میں بے خوف ہوجاتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ اس کے ظلم پر اسے کوئی پکڑنے نہیں آئے گا، قرآن نے اس کو اپنا مستقل موضوع بنا لیا ہے۔ چنانچہ جو حکم آپ کو قرآن میں سب سے زیادہ نظر آئے گا وہ اللہ کے تقویٰ کا حکم ہے۔ تقویٰ کا مطلب ہے کہ انسان یہ جان لے کہ خدا بہت طاقتور ہے اور انسان کسی صورت اس کی پکڑ سے بچکر نہیں بھاگ سکتا۔ قرآن کہتا ہے کہ خدا تمھاری نگاہ کی خیانت بھی جانتا ہے اور جو تمھارے دل میں پوشیدہ ہے وہ بھی۔ تمھاری زبان سے ایک لفظ نہیں نکلتا مگر یہ کہ اسے ایک لکھنے والا لکھ لیتا ہے۔ تمھارے پاس ہمیشہ فرشتے رہتے ہیں جو تم کرتے ہو وہ سب لکھتے رہتے ہیں۔ قیامت کے دن جب تم اس کے سامنے پیش ہوگے تو اپنے ایک ایک قول و فعل کو وہاں پاؤ گے۔رائی کے دانے برابر بھی برائی کرو گے تو اسے اپنے نامہ اعمال میں دیکھ لو گے۔
وہ یقین دلاتا ہے کہ قیامت کے دن کی یہ پیشی ہر حال میں ہوگی۔ ایک روز سب لوگ دوبارہ زندہ کرکے خدا کے حضور پیش کیے جائیں گے۔ منکرین نے اس پر اعتراض کیا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ مردے دوبارہ زندہ ہوں۔ خدا جواب دیتا ہے ہم اگر پہلی دفعہ تمھیں پیدا کرسکتے ہیں تو دوبارہ کیوں نہیں کرسکتے۔ پھر قرآن خاص طور پر جنت اور جہنم کا تفصیلی نقشہ کھینچ کر لوگوں کو اپنا رویہ تبدیل کرنے پر آمادہ کرتا ہے۔ جنت جس کا نقشہ قرآن دو جملوں میں اس طرح کھینچتا ہے کہ اس میں جو تمھارا دل چاہے گا وہ ملے گا اور جو تم مانگو گے وہ دیا جائے گا، اسی بات کا بدلہ ہے کہ انسان نے خدا کے خوف سے طاقت کے بجائے اخلاقی اصولوں پر زندگی گزاری۔ جہنم کو البتہ وہ ظلم کا بدلہ قرار دیتا ہے۔
وَقَدْ خَابَ مَنْ حَمَلَ ظُلْماً، (طہ20:111)
چنانچہ اگر کوئی انسان اس تصور کے ساتھ زندہ ہے کہ وہ خدا کی ہر لمحہ نگرانی میں ہے۔ وہ اس سے بچ کر کہیں نہیں بھاگ سکتا۔ اور ایک روز اس کا ہر قول و فعل اس کے سامنے پیش کرکے خدا اس کا حساب لے گا اور اس کے ظلم پر سخت سزا دے گا تو پھر انسان اپنی ساری طاقت کے باوجود ظلم کا ارتکاب کرتے ہوئے ہزار دفعہ سوچے گا۔
گھریلو تشدد میں آخری چیز میاں بیوی کا اختلاف ہے جو بڑھ کر اشتعال کا باعث بنتا ہے اور تشدد کو جنم دیتا ہے۔ تاہم جہاں تک اختلاف کا تعلق ہے یہ یاد رکھنا چاہیے کہ یہ بالکل فطری چیز ہے۔ ہر انسان جو اس بندھن میں بندھا ہے وہ جانتا ہے کہ یہ ممکن نہیں کہ اختلاف نہ ہو۔ تاہم اس کے ساتھ ہم یہ بھی جانتے ہیں شادی کا رشتہ اصل میں محبت کا رشتہ ہے۔ اپنے اختلافات کے باوجود انسان خاندان کی شکل میں مل کر رہتے ہیں۔ محبت سے رہتے ہیں۔ وہ اپنے اختلاف کو بات چیت اور کچھ لو اور دو کی بنیاد پر حل کر لیتے ہیں۔ کبھی ایک فریق کی بات مان لی جاتی ہے کبھی دوسرے کی۔ محبت کے اس رشتے میں ایسا ہی ہوتا ہے۔
تاہم کبھی یہ اختلاف اتنا گہرا ہوتا ہے کہ کوئی فریق پیچھے ہٹنے پر تیار نہیں ہوتا۔ ایسے میں اللہ تعالیٰ نے جھگڑا ختم کرنے کے لیے ایک فیصلہ دے دیا ہے۔ وہ یہ کہ مسئلہ حل نہ ہو تو خواتین کو شوہر کی بات مان لینی چاہیے۔ یوں قرآن نہ صرف جھگڑے اور تشدد کو پیدا ہونے سے پہلے روک دیتا ہے بلکہ عورت کی نفسیات کو یہ تسکین دیتا ہے کہ اس نے اگر بات مانی ہے تو یہ شوہر کی نہیں بلکہ خدا کی بات مانی ہے۔ اس کا اجر وہ خدا کے ہاں پائیں گی۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ مردوں کو ظلم و زیادتی کی اجازت دے دی گئی ہے۔ شوہر کا کوئی فیصلہ ظلم و زیادتی پر مبنی ہے تو وہ اس کی سزا پائے گا۔
اس طرح قرآن نے اس تیسرے مسئلے کو حل کیا ہے جو گھریلو تشدد کو جنم دیتا ہے۔ یعنی اختلاف ہوگیا ہے اور یہ فیصلہ ہی نہیں ہو رہا کس کی بات مانی جائے۔ ایسے میں قرآن نے عورتوں کو کہہ دیا ہے کہ اختلاف کی شکل میں آپ کو مرد کا فیصلہ قبول کرنا ہوگا۔ جس کے بعد جھگڑا ختم ہوجائے گا اور مرد کے پاس کوئی وجہ نہیں رہے گی جو اسے اشتعال میں لائے اور تشدد پر ابھارے۔
تاہم بعض اوقات اختلاف کی یہ خلیج بڑی گہری ہوتی ہے۔ چنانچہ پھر اسلامی شریعت یہ راستہ تجویز کرتی ہے کہ دونوں میں سے جو فریق چاہے اس رشتے کو ختم کر دے۔ دونوں کے لیے علیحدگی کا راستہ کھلا ہوا ہے۔ یہ خاندان کے حوالے سے اسلام کی شریعت ہے جو ہر طرح کے اختلافات میں ایک فیصلہ کن راستہ دکھاتی ہے اور گھریلو تشدد کے مسئلے کو حل کرتی ہے۔
البتہ یہ ایک حقیقت ہے کہ بعض انسان اصولوں کے مطابق نہیں جیتے۔ ان میں سے کچھ ایسے ہوتے ہیں جو علیحدہ بھی نہیں ہوتے اور آپس میں جھگڑتے بھی رہتے ہیں۔ ایسے میں اللہ تعالیٰ نے ایک راستہ بتایا ہے۔ یہ کوئی شریعت کا قانون نہیں جس کی پابندی لازمی ہے بلکہ ایک سماجی ہدایت ہے۔ یہ سماجی ہدایت ایک ایسے معاشرے میں بہت مفید ہے جہاں خاندان کا اثر بہت مضبوط ہوتا ہے۔ وہ ہدایت یہ ہے کہ شوہر اور بیوی دونوں کے خاندان سے ایک ایک ثالث آئے اور فریقین سے بات کرکے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کریں۔ اس سے امید یہ ہے کہ دونوں خاندانوں کے لوگوں کے بیچ میں پڑنے اور سمجھانے بجھانے سے مسئلہ حل ہوجائے گا۔یہ چونکہ شریعت کا کوئی ضابطہ نہیں ہے اس لیے اس مرحلے سے گزرے بغیر بھی لوگ ایک دوسرے سے علیحدہ ہوسکتے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ آج کے نئے تمدن میں جب نیوکلس فیملی یعنی میاں بیوی اور بچوں پر مشتمل خاندان کا دور ہے تو دونوں خاندانوں کے بجائے عدالت یا حکومت کے مقرر کردہ لوگ یا کونسلر وغیرہ ثالثی کا یہ کام کریں۔ دین کواس پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔
میاں بیوی کے رشتے میں ایک اور مسئلہ ان خواتین کی طرف سے پیدا ہوتا ہے جو خدا کے بنائے ہوئے اس نظم کو چیلنج کر دیتی ہیں کہ میاں بیوی کے فیصلہ کن اختلاف کی شکل میں انھیں شوہر کی بات ماننی ہے۔ وہ شوہر سے ہر طرح کے فائدے لے رہی ہوتی ہیں جو خدا نے انھیں دلوائے ہیں یعنی گھر، لباس، خوراک اور ہر طرح کے ذاتی خرچے مگر جواب میں وہ نہیں کرتیں جو ان سے کہا گیا ہے۔ وہ شوہر سے طلاق لے کر الگ بھی نہیں ہوتیں اور نہ شوہر کو شوہر سمجھنے کے لیے تیار ہوتی ہیں۔ یعنی مسئلہ اختلاف کا نہیں ہے بلکہ بغاوت کا ہے۔ زمانہ قدیم کے پدرسری سماج میں مرد ایسی عورتوں پر فوراً ہاتھ اٹھا دیتے تھے۔ یوں گھریلو تشدد جنم لیتا تھا۔
قرآن مجید نے اس صورتحال میں مداخلت کر کے ایک اور سماجی ہدایت کی۔ وہ یہ کہ مردوں سے کہا گیا جب بغاوت کی یہ صورتحال ہو تو پھر تم پہلے مرحلے پر خاتون کو خود سمجھاؤ۔ جب یہ سمجھانے کے عمل کا کوئی فائدہ نہیں دے تو تم دوسرے مرحلے میں اپنا بستر الگ کرلو اور الگ سونا شروع کر دو۔ یہ علامتی طور پر تمھارے غصے اور ناراضی کا اظہار ہوگا۔ یہ وہ وقت ہوگا کہ خاتون کو بھی فیصلہ کرلینا چاہیے کہ اسے اپنا رویہ درست کرکے ساتھ رہنا ہے یا شوہر کا گھر چھوڑ کر الگ ہوجانا ہے۔ لیکن اس دوسرے مرحلے کے بعد بھی وہ فائدہ کوئی نہیں چھوڑنا چاہتی، خلع بھی نہیں لے رہی تو پھر تیسرے مرحلے میں قرآن نے مردوں کو پدرسری معاشرے میں ملے ہوئے اس حق کو بہت محدود سطح پر استعمال کرنے کی اجازت دی جس میں عورت کو کچھ ہلکی پھلکی ضرب لگا کر ان کو تنبیہ کرسکتے تھے۔
یہ وہ سماجی ہدایت ہے جس کے بارے میں بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام نے گھریلو تشدد کی اجازت دی ہے۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ قدیم پدرسری معاشرے میں گھر کے سربراہ کا یہ مسلمہ حق تھا کہ وہ کسی کی اصلاح کے لیے اسے مار سکتا ہے۔ قرآن نے اس میں مداخلت کرکے دو بنیادی اصول طے کر دیے۔ ایک یہ کہ پدرسری معاشرے میں شوہر کا جو حق مطلقاً تھا اس کو صرف ایک صورت کے ساتھ محدود کر دیا یعنی جب خاتون مکمل بغاوت کر دے اور گھر اور مرد کو چھوڑنے پر بھی آمادہ نہ ہو۔ دوسرے یہ کہ فوری اشتعال کے ہر امکان کو ختم کرکے اس سے پہلے دو مرحلے طے کر دیے۔ جس کے بعد مرد و زن دونوں کے پاس موقع ہے کہ اس رشتے کو ختم کرکے الگ ہوجائیں۔
یوں قرآن نے بڑی حکمت سے پدرسری معاشرے سے تشدد کا وہ رجحان ختم کرنے کی کوشش کی جو عام تھا۔ تاہم ہم یہ دہرا دیں کہ یہ شریعت کا کوئی حکم نہیں کہ جسے مرد کو ہر حال میں پورا کرنا ہے۔ شریعت کا قانون یہ ہے کہ آپ خاتون کے ساتھ گزارا نہیں کرنا چاہتے تو الگ ہوجائیں۔ یہی قانون عورت کے لیے ہے کہ اسے ساتھ نہیں رہنا تو الگ ہوجائے۔ تاہم اب جبکہ عورت پر ہاتھ اٹھانے کی روایت کو سماجی طور پر برا سمجھا جاتا ہے تو سماج اور ریاست اس طرح کے مسائل حل کرنے کے لیے کوئی دوسرا راستہ تجویز کرسکتی ہے، کیونکہ یہ کوئی شرعی ضابطہ نہیں بلکہ پدرسری سماج میں دی گئی ایک سماجی ہدایت تھی۔ یہ بھی خیال رہے کہ جس وقت پدرسری معاشرے میں اس کو ان مراحل کے بعد روا رکھا گیا تھا تب بھی اس کی نوعیت تشدد کی ہرگز نہیں تھی۔ روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضور نے چہرے پر مارنے سے منع کیا تھا۔ اس زور سے مارنے سے منع کیا تھا جس سے جسم پر کوئی نشان رہ جائے۔
اس ہدایت کی وجہ یہ تھی اسلامی معاشرے میں نہ صرف گھریلو بلکہ ہر قسم کے تشدد کو ختم کرنے کے لیے شریعت نے ایک قانون بنا دیا تھا جسے قصاص کا قانون کہتے ہیں۔
وَکَتَبْنَا عَلَیْْہِمْ فِیْہَا أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَالْعَیْْنَ بِالْعَیْْنِ وَالأَنفَ بِالأَنفِ وَالأُذُنَ بِالأُذُنِ وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ وَالْجُرُوحَ قِصَاصٌ فَمَن تَصَدَّقَ بِہِ فَہُوَ کَفَّارَۃٌ لَّہُ وَمَن لَّمْ یَحْکُم بِمَا أنزَلَ اللّہُ فَأُوْلَ ءِکَ ہُمُ الظَّالِمُونَ(45)،(المائدہ 45:5)
یہ قانون واضح ہے کہ ہر قسم کے جسمانی نقصان اور زخم کا بدلہ لیا جانا فرض ہے۔ اس میں میاں بیوی کو کوئی استثنا نہیں ہے۔ چنانچہ ایک شوہر اگر بیوی کو جسمانی تشدد کا نشانہ بنائے گا تو قصاص کے اس قانون کے مطابق ریاست جواب میں اس شوہر کے ساتھ وہی سلوک کرنے کی پابند ہے۔
یہ اسلام کی وہ جامع اور ہمہ گیر رہنمائی ہے جو نہ صرف عورتوں بلکہ ہر طرح کے کمزوروں پر ظلم کا راستہ روکتی ہے۔ اس دنیا میں بھی اور آنے والی دنیا میں بھی۔ قانون سازی کے ذریعے سے بھی اور کردار سازی کے ذریعے سے بھی۔ اگر اس کے باوجود دنیا میں تشدد پایا جاتا ہے تو اس لیے نہیں کہ اس کا کوئی حل نہیں ہے۔ اس لیے ہے کہ لوگ اس حل کو اختیار کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔