پولن کا درخت ۔ ابویحییٰ
پولن کا درخت جسے عام طور پر جنگلی شہتوت کا درخت بھی کہتے ہیں، اسلام آباد کی پہچان ہے۔ یہ درخت جنگلات کی صورت میں اس شہر میں جگہ جگہ پھیلا ہوا ہے۔ اس درخت کی بنا پر شہر نہ صرف سرسبز ہوگیا ہے بلکہ گرمیوں میں ماحول کو ٹھنڈا رکھنے کا سبب بھی بنتا ہے۔
پولن (Pollen) دراصل ایک سفوف نما شے ہے جو اس درخت پر پیدا ہوتا ہے۔ ہوا کے ذریعے سے یہ سفوف دوسرے درختوں تک پہنچتا ہے اور ان کی زرخیزی کا سبب بنتا ہے۔ اس عمل کو پولینیشن (Pollination) کہتے ہیں۔ اس درخت سے نکلنے والا یہ پولن انسانوں کے لیے بڑے مسائل پیدا کرنے کا سبب بن رہا ہے۔ یہ سانس کی نالی میں الرجی پیدا کر کے متاثرہ شخص کو نزلہ، زکام اور دیگر امراض میں مبتلا کر دیتا ہے۔ خاص کر دمے کے مریضوں کو اس کی وجہ سے بڑی تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بہت سے لوگ تو اس قابل ہی نہیں رہتے کہ شہر میں رہ سکیں۔ جب یہ مسئلہ شدت سے سامنے آیا تو اس درخت کو کاٹنے کا فیصلہ کیا گیا اور اب بڑے پیمانے پر اس درخت کو کاٹ کر ہٹایا جارہا ہے۔
پولن کے درخت کی مثال یہ بتاتی ہے کہ خدا نے اپنی اس دنیا میں قیام و بقا کا کیا قانون بنا رکھا ہے۔ یہ قانون نفع بخشی ہے۔ جب تک کوئی وجود نفع بخش رہتا ہے وہ فطرت کے قانون کے تحت دنیا میں اپنا وجود باقی رکھتا ہے۔ جب اس کا نفع نقصان میں بدل جاتا ہے تو قدرت کے قانون کے تحت اس کا وجود مٹ جاتا ہے۔
انسانوں کو بھی اس اصول سے کوئی استثنا حاصل نہیں ہے۔ اس دنیا میں وہی شخص ترقی کرتا اور کامیاب رہتا ہے جو دوسرے لوگوں کے لیے نفع بخش ہو۔ جس کی محنت اور صلاحیت دوسروں کو اس بات کا یقین دلا دے کہ اس کی موجودگی ہمارے لیے مفید ہے۔ اس کے برعکس جو شخص لوگوں کے لیے تکلیف اور نقصان کا باعث بن جائے، وہ کبھی ترقی نہیں کرسکتا۔ اس کا مزاج، اس کی گفتگو اور اس کا عمل بار بار لوگوں کے لیے مسئلہ پیدا کرے گا اور لوگ اسے اپنے درمیان سے نکال باہر کریں گے۔
نفع بخشی اس دنیا میں ترقی اور کامیابی کا راز ہے۔ جب کوئی شخص ترقی کے میدان میں پیچھے رہ جائے تو اسے دوسروں کو الزام دینے کے بجائے یہ دیکھنا چاہیے کہ کہیں اس کی نفع بخشی کی صلاحیت کم یا ختم تو نہیں ہوگئی۔