پیس آف میٹ ۔ ابویحییٰ
انسانی تاریخ میں عورت کا ایک بڑا المیہ یہ رہا ہے کہ اسے ہر دور میں پیس آف میٹ (Piece of Meat) ہی سمجھا گیا ہے۔ تہذیب قدیم ہو یا تہذیب جدید دونوں کا رویہ اس حوالے سے یکساں ہی رہا ہے کہ ان کے نزدیک عورت مزہ لینے کی ایک چیز ہی رہی۔ زمانہ قدیم میں عورتوں کو حرم کی زینت بنا کر یہ مقصد حاصل کیا گیا اور دور جدید میں انھیں میڈیا کی زینت بنا کر یہی خدمت لی جارہی ہے۔ اس پورے معاملے میں صرف ایک ہی استثنا ہے۔ وہ استثنا دین اسلام کی تعلیمات کا ہے۔ اسلام نے نہ صرف اپنی نظری تعلیمات سے بلکہ عملی احکام سے بھی عورت کو پیس آف میٹ کے مقام سے اٹھایا اور مردوں جیسا ایک انسان بنا کر پیش کیا ہے۔
قرآن مردوں کو سکھاتا ہے کہ عورتیں، گھورنے اور تاڑنے کی چیز نہیں ہوتیں۔ عورتوں کے حصول کا ایک ہی ذریعہ ہے کہ نکاح کا تعلق قائم کیا جائے۔ مردوں کے حوالے سے یہی چیز عورتوں کو سکھائی گئی ہے۔ مگر اس سے آگے بڑھ کر انھیں یہ احساس دلایا گیا ہے کہ وہ خود بھی مردوں کے سامنے ایک نمائش کی چیز بن کر نہ آئیں۔ اپنی جنسی کشش کو چھپائیں۔ اپنی زنیت کو ظاہر نہ ہونے دیں۔ مرد کے اندر کے شیطان کو جگانے والی یہی چیزیں ہیں۔ اس معاملے میں اس حد تک احتیاط کی تلقین کی گئی ہے کہ خواتین کے پوشیدہ زیورات بھی اگر پکار کر مخاطب کو یہ احساس دلانا چاہیں کہ ان کے سامنے عورت ہے تو تلقین کی گئی ہے کہ ان کی بھی زبان بندی کر دو۔
یہی وہ احکام ہیں جن کے بعد عورت فطری حدود میں رہ کر گھر کے اندر اور باہر سارے معمولات زندگی سرانجام دے سکتی ہے، مگر وہ مردوں کے سامنے پیس آف میٹ بن کر نہیں آتی بلکہ انسان بن کر آتی ہے۔ اس پہلو سے یہ احکام انسانیت کی معراج ہیں۔