پتھریلا راستہ ۔ ابویحییٰ
قرآن کریم میں سو سے زائد مقامات پر صبر کا ذکر ہے۔ صبر اتنی بڑ ی چیز ہے کہ اسے جنت میں جانے کا ذریعہ (الدہر 12:76، الرعد 22:13)، اجر بے حساب (الزمر 10:39) کی وجہ اور معیت الہی کا سبب (البقرہ 153:2) قرار دیا گیا ہے۔
صبر کے کئی پہلو ہوتے ہیں۔ یہ ایمان لانے کے بعد اس کے تقاضوں پر جمے رہنے، راہ حق میں پیش آنے والی مشکلات کو برداشت کرنے، زندگی کی آزمائشوں کو رضائے الٰہی کے لیے حوصلے سے جھیلنے اور دعوت حق کے مخالفین کے بیہودہ پروپیگنڈے کے مقابلے میں تحمل اور برداشت سے کام لینے کا نام ہے۔
مذکورہ بالا تمام مواقع پر انسان کو ایک طرف خارجی محرکات کے مقابلے میں اپنے نفس پر قابو پانا ہوتا ہے تو دوسری طرف اپنے اندر پیدا ہونے والی جھنجھلاہٹ کو برداشت بھی کرنا ہوتا ہے۔ پہلے کی ایک مثال یہ ہے کہ ایک نوجوان کے سامنے جب کوئی فحش منظر آئے تو اسے اپنے آپ سے جنگ کرکے خواہش نفس پر قابو پانا ہوگا۔ ایک اور مثال گہری نیند سے بیدار ہوکر فجر کی نماز پڑھنا ہے۔ اس کے لیے بھی خود سے لڑنا پڑتا ہے۔ جبکہ اپنے اندر کے غصے اور جھنجھلاہٹ کو برداشت کرنے کی ایک مثال بیماری یا کاروباری نقصان پر خود کو تلخی اور شکوے شکایت سے روکنا ہے۔ ایک اور مثال کسی شخص کا آپ کو گالی دینا ہے۔ اس کے جواب میں غصہ آنا ایک فطری امر ہے۔ مگر جواب میں خود کو گالی دینے سے روکنا اور اپنی توہین برداشت کرلینا بڑی ہمت کا کام ہے۔ اسی طرح ایک داعی کے لیے جھوٹے پروپیگنڈے اور الزام و بہتان کی یلغار میں صبر سے کام لینا بلاشبہ پیغمبرانہ حوصلے کا کام ہے۔
صبر کا راستہ پتھریلا ہے۔ مگر اس کی منزل جنت کے ابدی باغ ہیں۔ ایک صابر شخص جب وہاں پہنچے گا تو اسے محسوس ہوگا کہ راہ کا ہر پتھر ایک پھول تھا جس سے اس کی زندگی مہک اٹھی ہے۔