مبارک ہیں وہ ۔ ابویحییٰ
انسان ایک ایسی دنیا میں جیتے ہیں جہاں سب سے زیادہ قابل ذکر ہستی اللہ رب العالمین کی ہے۔ مگر ان کے ہاں سب سے کم اسی کی ہستی زیر بحث آتی ہے۔ یہ وہ سب سے بڑا المیہ ہے جو آسمان کے نیچے اور زمین کے اوپر رونما ہو رہا ہے۔ اور شاید اس وقت تک ہوتا رہے گا جب تک عالم کا پروردگار ان آسمان و زمین کو ایک نئے آسمان و زمین سے نہیں بدل دے گا۔
ہمیں وجود دینے سے لے کر ہر لمحہ ہماری آتی جاتی سانسوں تک، ہمارے دل کی دھڑکن سے لے کر ہمارے رزق و روزگار تک، ہمارے لیے روشن سورج سے لے کر ہوا، پانی اور خوراک تک کے ہر چھوٹے بڑے معاملے کا کلی انحصار اللہ کی کرم نوازی اور عطا پر ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ جو رب ہماری زندگی میں اس درجہ دخیل ہے، ہم ہر لمحہ اس کی حمد، تسبیح اور تعریف کرتے رہیں۔ جس کے ہاتھ میں ساری بھلائی اور جو ہر شر سے بچانے کی طاقت رکھتا ہے، ہم ہر لحظہ اس کے سامنے سراپا التجا بنے رہیں۔ مگر حیرت انگیز طور پر انسان جو خوردبین اور دوربین سے ناقابل مشاہدہ دنیا کو بھی دیکھ چکا ہے، ایسے عظیم الشان خدا کو دیکھنے کے لیے اندھا بنا رہتا ہے۔
لیکن جو لوگ اس اندھے پن سے نکل جاتے اور خدا کی یاد کو زندگی بنا لیتے ہیں، وہ پہلے مرحلے پر خدا کو سنتا ہوا اور اگلے مرحلے پر سب کچھ کرتا ہوا دیکھنے لگتے ہیں۔ وہ پکارتے ہیں اور خدا ان کی فریاد سن لیتا ہے۔ مانگی ہوئی چیز نہ ملے تو بہتر مل جاتی ہے اور اس سے بہتر ذخیرہ کر لی جاتی ہے۔ جس کے بعد وہ خدا کو سب کچھ کرتا ہوا اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔ ان کا ایمان یقین میں بدل جاتا ہے۔
خدا ایک زندہ و جاوید حقیقت ہے۔ اُس کی دریافت ایمانی سفر کی وہ درمیانی منزل ہے جو ہر اس شخص کو آخرکار نصیب ہوتی ہے جو تعصبات اور خواہشات سے اوپر اٹھ جائے۔ اس سفرکی آخری منزل جنت میں خدا کا قرب ہے۔ مبارک ہیں وہ جو اس راستے کے مسافر ہیں۔