غلبے کا خواب ۔ ابویحییٰ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حضرت خدیجہؓ سے شادی کے وقت آپ کے چچا ابو طالب نے ایک خطبہ دیا۔ جس میں آپ کے متعلق فصیح وبلیغ عربی میں ارشاد فرمایا:
’’محمد ابن عبداللہ جو میرے بھتیجے ہیں قریش کے ہر نوجوان سے نیکی، فضل، کرم، عقل، احترام اور شرف میں برتر ہیں۔ اگرچہ ان کے پاس مال کم ہے مگر مال تو ڈھلنے والا سایہ ہے۔‘‘
یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جوانی پر آپ کے چچا کی گواہی تھی اور جب آپ کے پاس مال و دولت بہت ہوچکا تھا اس وقت آپ کی اہلیہ محترمہ اماں خدیجہ ؓ نے پہلی وحی کے موقع پر آپ کے کردار کو یوں بیان کیا:
’’اللہ آپ کو کبھی رسوا نہ کرے گا۔ آپ صلہ رحمی کرتے، کمزور کا بوجھ اٹھاتے، محتاج کو کما کر دیتے، مہمان نوازی کرتے، مشکل وقت میں حق کا ساتھ دیتے ہیں۔‘‘، (بخاری، رقم 3)
مسلمانوں کا شاید سب سے بڑا سانحہ یہ ہے کہ ان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حلیہ اور آپ کا عشق دونوں کمال درجے میں موجود ہے، نہیں ہے تو آپ کی سیرت و کردار کا وہ نمونہ نہیں ہے جس کی شہادت آپ کے چچا اور آپ کی اہلیہ نے دی تھی۔
یہ سیرت و کردار کتنی بڑی چیز تھی اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ آغاز نبوت میں آپ نے اسے اپنی سچائی کی سب سے بڑی دلیل کے طور پر پیش کیا تھا۔ نبوت کے اعلان عام کے موقع پر آپ نے کوہ صفا پر چڑھ کر سارے قریش کو پکارا اور ان سے پوچھا کہ اگر میں کہوں کہ پہاڑ کے دوسری طرف ایک لشکر ہے جو تم پر حملہ آور ہونے والا ہے تو کیا تم مان لوگے۔ سب نے کہا کہ ضرور مانیں گے کیونکہ آپ نے کبھی جھوٹ نہیں بولا۔ یہی وہ لوگ تھے جو تمام تر مخالفت کے باوجود ہجرت کے وقت تک اپنی ساری امانتیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رکھا کرتے تھے۔ کردار، اخلاق، صدق و امانت پر مبنی یہی وہ سیرت تھی جس نے اسلام کو دنیا میں غالب کیا۔ آج اس سیرت کے بغیر کسی غلبے کا خواب دیکھنا حماقت کے سوا کچھ نہیں۔